کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 18
واضح رہے کہ الگ الگ فنی حیثیت سے ہمارا مروجہ امتیازِ تفسیر و حدیث دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ میں نہ تھا، اسی لیے اس وقت ’’مفسر‘‘ اور ’’محدث‘‘ کی معروف اصطلاح بھی عام نہ تھی۔ بعد کے ادوار میں جب علوم و فنون کی علیحدہ علیحدہ مستقل تدوین ہوئی تو اس وقت کے علماء کی ان کے اپنے اپنے کام کے مطابق حیثیت ممتاز ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے مفسرین اور محدثین کے رحلات کو صحابہ اور تابعین سے علیحدہ بیان کیا ہے۔
یوں تو قرونِ اولیٰ میں اتباعِ تابعین اور ان کے قریب العصر علماء میں زیادہ تر جامع العلم شخصیات کا ہی وجود ملتا ہے کیونکہ ان دنوں شریعت کی واقفیت اور اس کے لئے جملہ ضروری علوم کے حصول کی طرف رجحان زیادہ تھا تاہم نئے نئے درآمدہ علوم اور کئی مکاتب فکر پیدا ہو جانے کے سبب سے جہاں علوم میں وسعت پیدا ہوئی وہاں علم و کام میں بھی تخصص کا میلان پیدا ہوا۔ یہ سلسلہ اگرچہ تابعین کے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا جبکہ اہل الحدیث اور اہل الرائے دو مکتبِ فکر وجود میں آئے لیکن اس وقت یہ صرف اندازِ نظر تک محدود تھا، کسی کا رجحان زیادہ تلاش سنت اور روایتِ حدیث کی طرف تھا اور کسی کا اجتہاد و استنباط کی طرف۔ مگر بعد ازاں جس طرح اسی اختلافِ فکر نے محدثین اور فقہاء کو الگ الگ حیثیت دے دی اسی طرح فنی طور پر مفسرین اور محدثین کے الگ الگ گروہ وجود میں آئے۔ ورنہ دورِ صحابہ اور تابعین بلکہ اتباعِ تابعین (خیر القرون) میں کسی عالم ربانی کے لئے قرآن، حدیث اور فقہ تینوں کی مہارت ضروری تھی۔ ان تین چیزوں میں سے کسی ایک کے بغیر کسی کو ماہرِ شریعت نہ سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ اس دور کے علماء ان سہ گانہ علوم کے علاوہ تاریخ و ادب میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔
اس ساری بحث سے میرا مقصود یہ ہے کہ میں ان کے امتیازی کاموں کے لحاظ سے الگ الگ ان کے رحلاتِ علم کا بیان تو کروں گا لیکن در حقیقت محدثیں کے علمی سفروں کے تحت تقریباً سبھی گروہ آ جاتے ہیں جن میں مؤرخین، ادباء، شعراء اور صوفیاء تک شامل ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون کے شروع میں میں نے رحلۂ علم کو صرف محدثین کی اصطلاح کا نام دیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنے تقدس اور تبرک کے لئے رحلۂ علم اسی گروہِ قدسی کا رہینِ منت ہے ورنہ خالی سفر کوئی دینی امر نہیں ، بلکہ سمندروں دریاؤں کے بے ضرورت سفر سے تو سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اب محدثین و