کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 16
یہ تو تھا مختصر ذکر صحابہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تحصیلِ علم کا، لیکن ان صحابہ اور تابعین کی تعداد بھی کچھ کم نہیں جو دوسرے صحابہ کی خدمت میں اس غرض سے تشریف لاتے رہے حتیٰ کہ معمولی سے معمولی چیز کے لئے دور دراز کا سفر کرنے سے دریغ نہ کرتے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ بن عبد اللہ کے متعلق روایت کیا ہے کہ انہوں نے صرف ایک حدیث معلوم کرنے کے لئے ایک اونٹ خریدا اور مدینہ سے شام تک ایک ماہ کی مسافت طے کی تاکہ حضرت عبد اللہ بن انیس جہنی سے حدیثِ قصاص سنیں ۔[1] اس طرح کے بے شمار واقعات کے لئے بطور مچال صرف اسی ایک ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم حصولِ علم کے لئے سفر کرتے وقت اس چیز کو قطعاً نظر انداز کر دیتے تھے کہ جس کے پاس ہم جا رہے ہیں وہ مرتبہ میں کہیں ہم سے فرو تر نہ ہو۔ بلا امتیاز بڑی عمر کے صحابہ کبھی اپنے ہم عمر اور کبھی اپنے سے صغیر السن سے اخذ و روایت کرتے۔ اسی طرح قدیم الاسلام جدید الاسلام سے بھی تعلیم حاصل کرتا اور اس میں کوئی باک محسوس نہ کرتا۔ سنن الدارمی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رحمہ اللہ کا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور صحیح بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حذیفۃ بن الیمان سے استفادہ ثابت ہے۔ اسی طرح حضرت عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہ بن عوف اور ان کے ساتھیوں کا حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے معلومات حاصل کرنا معروف ہے جس کی روایت امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی کی ہے۔ چھوٹے صحابہ کا بڑوں سے یا جدید الاسلام کا قدیم الاسلام سے روایت کرنا تو بہت ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی نے اپنی جامع میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اخذِ علم ذکر کیا ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جس طرح صحابہ کی ایک بڑی جماعت تبلیغِ دین کے لئے اقطار و جوانب میں پھیل گئی اور اس کام کو انہوں نے اتنی اہمیت دی کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اعمالِ حسنہ کے اجر و ثواب کو بھی نظر انداز کر دیا۔ اسی طرح تابعین گروہ در گروہ صحابہ کی مجالسِ علمیہ میں شرکت کے لئے ان کے پاس پہنچنے لگے۔ کوئی مکہ سے اُٹھ کر مدینہ جا رہا ہے تو دوسرا مدینہ سے چل کر
[1] البخاری۔ باب الخروج فی طلب العلم جلد ۱ ص ۱۷، والترمذی و ابو داؤد وغیرہ