کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 15
علاوہ ازیں طول طویل سفر کر کے اکیلے یا وفد کی صورت میں دین کی تعلیم کی غرض سے آنے والوں اور علم و عمل سے بہرہ ور ہو کر تبلیغ کی غرض سے واپس اپنے علاقوں میں جانے والوں کی تعداد تو ان گنت ہے، خصوصاً فتح مکہ کے بعد تو تمام عرب سے جوق در جوق آنے والے شائقینِ علم کا تانتا بندھ گیا۔ حافظ ابنِ کثیر نے اپنی تاریخ میں عام الوفود کے عنوان سے ان تمام قبائل و وفود کا ذِکر کیا ہے جنہوں نے علم کی غرض سے رحلات کیے، جن کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق ستر ۷۰ ہے۔ [1]
کتبِ صحاح میں وفد عبد القیس کی آمد اور سوالات کا واقعہ معروف ہے۔ اسی طرح کتب احادیث میں بیشتر مقامات پر نام سے یا بغیر نام کے ان صحابہ کا ذِکر ہے جو مختلف مسائل پوچھنے یا شکوک و شبہات کے ازالہ کے لئے سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری دیتے رہے اور خود فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی افزوئی علم کا باعث بنتے رہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام صحابہ کو کثرتِ سوال سے منع کر رکھا تھا۔ اس لئے صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم اس بات کی تلاش میں رہتے تھے کہ کوئی بدّو یا مسافر آئے اور آکر سرور کائنات سے سوال کرے تاکہ اس طرح سے ہم بھی مستفیس ہو جائیں ۔ صحاح کی کتاب الایمان میں ضمام بن ثعلبہ انصاری کا قصہ معروف ہے جو معلومات کے حصول کے لئے اپنی قوم کی طرف سے رسالت مآب کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ صحابہ کے شوقِ علم کا یہ حال تا کہ جو صحابہ دوری یا کثرت مشاغل کی وجہ سے روزانہ آپ کے پاس حاضری نہ دے سکتے وہ آپس میں نوبہ (باری) مقرر کر لیتے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہمسائے عتبان بن مالک سے طے کیا کہ ایک دن وہ حاضر ہوں تو دوسرے دن عتبان، تاکہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزانہ کے اقوال و افعال سے واقف ہو سکیں ۔ بعض لوگ عرصے تک باوجود کوشش کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات سے مشرف نہ ہو سکتے تو دوسروں کی معرفت اپنا قبولِ اسلام اور دیگر پیغام آپ تک پہنچاتے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ دوسی انہی لوگوں میں سے تھے۔ پھر جب انہیں موقع میسر آجاتا تو بنفسِ نفیس آن کر مشرف بہ زیارت ہوتے۔
[1] البدایه والنھایه جلد ۵