کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 13
عود الی المقصود:
صوفیوں کے معروف سماع اور اہلِ ہوٰے کی موسیقی کے سلسلہ میں جن قرآنی آیات کا ذِکر کیا گیا ہے، ان میں سے صرف مندرجہ ذیل آیت کو ہم زیادہ واضح اور مصرح محسوس کرتے ہیں ۔
وَمَا کَانَ صَلٰوتُھُمْ عِنْدَ الْبَيْتِ اِلَّا مُكَآءً وَّتَصْدِيَةً ط فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ (پ ۹۔ الانفال۔ ع ۴)
’’اور خانہ کعبہ كے پاس تالیاں اور سیٹیاں بجانے کے سوا ان کی نماز ہی کیا تھی؟ تو (اے کافرو!) جیسا تم کفر کرتے رہے ہو۔ اب اس کے بدلے عذاب (کے مزے) چکھو۔‘‘ علماء نے لکھا ہے کہ:
’’جس طرح ہمارے ملک کے ہندو پوجا کے وقت مندروں میں ناچتے اور گاتے بجاتے ہیں ۔ اور اسی کے قریب قریب عیسائی گرجوں میں کرتے ہیں ، اسی طرح اہلِ مکہ تالیاں اور سیٹیاں بجایا کرتے تھے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
’’عرب کے مشرکین خانہ کعبہ کا ننگے ہو کر طواف کرتے، سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے۔‘‘ (ابن کثیر)
حضرت مولانا ثناء اللہ رحمۃ اللہ علیہ امرتسری لکھتے ہیں کہ:
صفیرا او تصفیقا لھوا ولعبادۃ وعبادة اخري كما يفعله كفار الھند
’’کبھی لہو و لعب کے طور پر اور کبھی بطور عبادت، جیسا کہ ہندی کفار کیا کرتے ہیں ، سیٹیاں اور تالیاں بجایا کرتے تھے۔‘‘ (تفسیر القرآن بکلام الرحمٰن۔ انفال)
الغرض غیر اسلامی مذاہب میں موسیقی کو عبادت کے طور پر اختیار کرنے کا جو رواج ہے، وہ محتاجِ بیان نہیں ، یہی حال اس وقت اہلِ عرب کا بھی تھا۔ اس لئے ہمارے نزدیک صوفیانہ سماع ہو یا غنا، مسرفانہ موسیقی ہو یا رقص و سرور اور ثقافتی محفلیں ، سبھی کے سلسلہ میں مندرجہ بالا آیت سے بڑی روشنی ملتی ہے اور جو لوگ ان امور کو عبادت کے طور پر بھی اپناتے ہیں ۔ ان کے خلاف تو آیت نے جس انداز سے بھرپور طنز کیا ہے، وہ بالکل قاطع نزاع ہے۔
(باقی آئندہ)