کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 12
بصوتک: وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ (پ ۱۵۔ بنی اسرائی۔ ع ۷) ’’اور ان میں سے جس کو تو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ۔‘‘ استفزز کے اصل معنی ’’ہلکا سمجھنے‘‘ کے ہیں ، بعض نے اس کے معنی ’’جاہل سمجھنا‘‘ کیے ہیں ۔ امام ابن العربی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : فالجھل تفسیر مجازی والخفة تفسير حقيقي (احكام القراٰن) یعنی ’’جہل والے معنی مجازی ہیں اور ہلکا سمجھنے والے معنی حقیقی ہیں ۔‘‘ لیکن کچھ مفسرین نے اس کے معنی غنا بھی کیے ہیں اور کچھ نے اس سے مطلقاً دعوۃ الی المعصیة بھی مراد لی ہے۔ امام ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’موخر الذکر دونوں معنی مجازی ہیں ، حقیقی صرف پہلا یعنی ’خفّت‘ ہے۔‘‘ (احکام القرآن) اور صوت سے مراد اس کی دعوت، تحریکات اور شیطانی آوازیں ہیں ۔ ’’لہو الحدیث‘‘، ’’سامدون‘‘، ’’زُور‘‘ اور ’’بصوتک‘‘ سے غنا کے معنی گو مجازی ہیں ، تاہم بہت سے مفسرین اور ائمہ دین کے اس پر اصرار سے یہ بات ضرور مترشح ہوتی ہے کہ ان سب کے نزدیک ’’غنا‘‘ کے اندر ان سب مفاسد اور برائیوں کا کامل پر تو ضرور ملتا ہے جو مندرجہ بالا اصطلاحات کے ضمن میں آتی ہیں ۔ اور موسیقی بہت سے مناہی اور معاصی کا مظہر ہے۔ اس لئے جب بھی کسی ایسی برائی کا ذِکر آتا ہے جو غفلت، جھوٹ، باطل اور استکبار پر مبنی ہوتی ہے تو نظام موسیقی کا تصور سب سے پہلے آتا ہے اور یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بے قابو سماع، یہ شوخ غنا اور یہ آوارہ موسیقی آپ کے سامنے ہیں اور اس کی تخلیقات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں ہیں ۔ اس لئے اگر کوئی اس مسرفانہ نظام سماع کو بیشتر مفاسد اور برائیوں کا خلاق یا ان کا واحد مرکز تصور کرتا ہے تو یہ کچھ زیادہ مبالغہ بھی نہیں ہے۔