کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 11
فاکتبوہ بلسان قریش فانما نزل بلسانھم ففعلوا (بخاری باب جمع القرآن)
ہمارے نزدیک ’’سامدون‘‘ کے اصل معنی ’’غافل متکبر‘‘ کے ہیں ۔ امام بخاری نے اس کے معنی ’’برطمہ‘‘ کیے ہیں ۔ نہایہ میں اس کے معنی الانتفاخ من الغضب (یعنی غصہ سے پھول جانا) کیے گئے ہیں ۔ امام عینی رحمہ اللہ نے اس کے معنی ’’اعراض‘‘ کیے ہیں اور یہ سارے معنی دراصل غافل متکبر کی ہی شکلیں ہیں ۔
امام بیضاوی رحمہ اللہ نے لا ھون اور مستکبرون (من سمود البعیر فی مسیرہ اذا رفع راسه (النجم) یعنی غافل متکبر کے معنی کیے ہیں جو ’’اونٹ کے گردن اٹھا کر تیز چلنے‘‘ کے محاورہ سے ماخوذ ہیں ۔ امام راغب رحمہ اللہ نے بھی یہی معنی کیے ہیں ۔ چونکہ غنا غفلت شعاروں کا ایک اہم شغل ہے اس لئے مفسرین ’’لہو الحدیث‘‘ کی طرح ’’سامدون‘‘ کا مصداق بھی اسی غنا کو بتاتے رہے ہیں ۔
الزُّور:
تیسری اصطلاح ’’زُور‘‘ ہے۔
وَالَّذِیْنَ لَا یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ میں ’’الزور‘‘ کے معنی غنا بھی ’’زُور‘‘ کے عموم پر کیے گئے ہیں ورنہ ’’زُور‘‘ باطل اور جھٹ کو کہتے ہیں ۔ جلالین میں ہے:
ای الکذب والباطل یعنی جھوٹ اور باطل
بیضاوی میں ہے:
لا یقیمون الشھادۃ الباطلة او لا یحاضرون محاضر الکذب
’’یعنی جھوٹی گواہی نہیں دیتے یا یہ کہ جھوٹ کی محفلوں میں شرکت نہیں کرتے۔‘‘
بعض شعراء نے اس کو ’’بت‘‘ کے معنوں میں بھی استعمال کیا ہے۔ کیونکہ صنم بھی ایک باطل شے ہے۔
دراصل جن اکابر نے اس کو ’’بت‘‘ کے معنوں میں بھی استعمال کیا ہے۔ کیونکہ صنم بھی ایک باطل شے ہے۔ راغب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’زُور‘‘ سینہ کے بالائی حصہ کو کہتے ہیں اور چونکہ گانے والا بھی سینہ تان کر گاتا ہے اس لئے غنا پر بھی اس کا اطلاق کیا گیا ہے۔ بہرحال غنا بھی اس سے مراد لیا جا سکتا ہے۔ بلکہ یہ ’’زُور‘‘ کے عموم کے تحت آتا ہے کیونکہ غنا کو بطور عبادت اہلِ باطل نے اختیار کیا ہے اور بطورِ تعیّش مسرفین نے۔