کتاب: محدث شمارہ 16 - صفحہ 10
نوجوانوں کو ’’بندۂ مومن‘‘ بننے اور ان کو سنجیدہ زندگی اختیار کرنے میں مدد نہیں دیتا بلکہ ان کو غلط طور پر متاثر کرتا ہے اور جس کی وجہ سے نوجوان اپنی پوری زندگی کو ’’بازارِ کھیل‘‘ کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں ۔ غنا یا موسیقی کو جن اکابر نے ’’لہو الحدیث‘‘ کا مصداق بنایا ہے وہ اس لحاظ سے کافی وزنی ہے کہ یہ چیزیں (غنا و موسیقی) خدا فراموش بھی ہیں اور انسان کی بہیمانہ خواہشات اور تحریکات کے لئے محرک بھی، تاہم لہو الحدیث کا مفہوم اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین نے ایک شخص کا واقعہ ذکر کیا ہے جس نے قرآنی ہدایت سے لوگوں کو غافل کرنے کے لئے ایک گانا بجانا کرنے والی لونڈی خریدی تھی جس سے مسحور کر کے وہ لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کرتا تھا۔ لیکن یہ مخصوص شانِ نزول اس آیت کے عموم کو خاص نہیں کرتا، جیسا کہ اصولِ معروف ہے۔ العبرۃ بعموم اللفظ لا بخصوص السبب ’’یعنی شانِ نزول کی خصوصیت آیت کے عموم کو خاص نہیں کرتی۔‘‘ ’’سامدون‘‘ پر بحث: لہو الحدیث کے بعد دوسری اصطلاح ’’سامدون‘‘ ہے۔ ارشاد ربانی ہے: اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَكُوْنَ وَلَا تَبْكُوْنَ وَاَنْتُمْ سَامِدُوْنَ (پ ۲۷۔ النجم۔ ع ۳) ’’تو کیا اس بات (ذکرِ قیامت) سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور تم کو رونا نہیں آتا بلکہ تم کھلاڑیاں کرتے ہو۔‘‘ ’’سامدون‘‘ کے معنی ’’لا ھون‘‘، ’’مستکبرون‘‘ اور ’’مغنون‘‘ کیے گئے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس سے گانے والے مراد لیے ہیں ۔ کیونکہ بعض یمنی قبائل (حمیر) کی لغت میں ’’سمود‘‘ غنا کو کہتے ہیں ، لیکن یہ صحیح نہیں ، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے جیسا کہ اس حدیثِ نبوی سے ظاہر ہے: