کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 9
دوسرے موقع پر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آیات کا سیاق و سباق بھی آیت کا مفہوم سمجھنے میں مد دیتا ہے کیونکہ آیات کی ترتیب بھی وحیِ الٰہی سے ہے۔ اس آیت کا شانِ نزول جو معتبر تفاسیر میں ذِکر ہے یہ ہے کہ منافقین زبانوں سے قسمیں کھا کھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو اپنی صداقتِ دینی کا اعتماد دلاتے تھے۔ لیکن اپنی خصوصی مجلسوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ایمان والوں کو برا بھلا کہتے تھے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔ انہی سازشوں میں سے ایک وہ تھی، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک سے واپس ہوئے تو منافقین نے ایک تنگ گھاٹی سے گزرتے وقت آپ اور آپ کے صحابہ پر حملہ کا پروگرام بنایا۔ چنانچہ یہ لوگ ایک جگہ چھپ کر اور اپنے چہروں کو چھپا کر بیٹھ گئے۔ جب صحابہ کا وہاں سے گزر ہوا تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حزیفہ رضی اللہ عنہ کو انہوں نے گھیر لیا۔ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو تو انہوں نے قابو کر لیا لیکن حضرت حذیفہ کی شجاعت کام آئی اور اس طرح سے یہ سازش ناکام ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اطلاع ملی تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس سلسلہ میں بارہ آدمیوں سے پوچھ گچھ کی لیکن وہ حلف کے ساتھ انکار کر گئے۔[1] اس پر یہ آیت اُتری:۔ يَحْلِفُوْنَ بِاللهِ مَا قَالُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمَا نَقَمُوْآ اِلَّآ اَنْ اَغْنٰهُمُ اللهُ وَرَسُوْلَهُ مِنْ فَضْلِه ۔۔۔۔۔۔ الاٰية ’’یعنی منافقین اللہ کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں بات نہیں کہی۔ حالانکہ يقيناً انہوں نے کفر کے کلمات کہے اور اسلام لانے کے بعد کفر کیا اور ایسی سازش تیار کی جس میں وہ ناکام ہوئے اور یہ (سب کچھ) انہوں نے اس بات کا انتقام لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے فضل سے (مال سے) انہیں غنی بنا دیا۔‘‘
[1] ملاحظہ ہو مسند احمد، مسلم، طبرانی اور دلائل النبوۃ للبیہقی وغیرہ