کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 8
ہی کے عذابِ الٰہی سے نجات حاصل کرے گا لیکن مشرک اگر بغیر توبہ کے مر گیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بن جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: إِنَّ اللَّـهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں فرمائیں گے اور اس کے سوا جو چائیں معاف فرما دیں ۔(النساء : 116) اِنَّه مَں يُّشْرِكَ بِاللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَآوٰهُ النَّارُ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کر دیا اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے۔ (المائدہ: ۷۲) ان آیات سے واضح ہے کہ شرک اللہ تعالیٰ کے ہاں کس قدر مذموم ہے جس کو وہ کسی حالت میں اور کسی کے لئے اجازت نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں توحید ہی اصلِ دین ہے اور ساری خرابیاں اسی توحید میں فرق آنے سے پیدا ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء نے ہر قسم کے معاشرہ میں اسی شرک کی خامیوں کو واضح فرمایا اور اسی توحید کی طرف سب سے پہلی عوت دی۔ یہاں میں اتنی بات واضح کر دوں کہ توحید صرف یہ نہیں ہے کہ ظاہری عبادات میں کسی اور کو سجدہ نہ کیا جائے بلکہ انسانی زندگی کے کسی بھی قسم کے معاملہ میں اگر مقصودِ رضاءِ الٰہی نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو چھوڑ کر صرف دوسروں کی اطاعت اور رضا طلبی ہو یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کو بھی حصہ دار بنایا جائے تو یہی کفر و شرک ہے۔ مجملاً بات کلمہ طیبہ (لا الٰلہ الا اللہ محمد رسول اللہ) کے اقرار سے ہر مسلمان تسلیم کرتا ہے اور اسی پر کار بند رہنے کا اعلان کرتا ہے اور باقی سارا دین اس کی تفصیل ہے۔ وللتفصیل موضع آخر۔ اَغْنٰھُمُ اللهُ وَرَسُوْلُه کی صحیح تعبیر: اب ميں آیت مذکورہ بالا کی اصلی تفسیر بیان کرتا ہوں ۔ ہمیں کسی آیت کا صحیح مفہوم جاننے کے لئے سب سے پہلے اس کا شانِ نزول دیکھنا چاہئے تاکہ اس مخصوص واقع سے اس کا مفہوم اصلی واضح ہو جائے۔ پھر اسی سببِ نزول کی روشنی میں اس آیت کی دلالت یا حکم کسی