کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 7
قرآن مجید میں زانی اور مشرک کو اکٹھا ذکر کر کے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے۔ ارشاد ہے: اَلزَّانِیْ لَا یَنْکِحُ اِلَّا زَانِيَةً اَوْ مُشْرِكَةٍ وَّالزَّانِيَةُ لَا يَنْكِحُھَا اِلَّا زَانِ اَوْ مُشْرِكٌ (النور: ۳) زانی (مرد) زانیہ یا مشرکہ عورت سے ہی نکاح کرتا ہے اور زانیہ عورت زانی یا مشرک مرد ہی سے نکاح کرتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں مشرک اور زانی کو اکٹھا ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح زنا کا عادی مرد یا عورت کبھی ایک بیوی یا خاوند پر قناعت نہیں کرتے اسی طرح مشرک کبھی ایک رب پر اکتفاء نہیں کر سکتا۔ جب خدا کو چھوڑ دیا تو کہیں کا بھی نہ رہا۔ میں اس آیت کی اصلی تفسیر کی طرف آنے سے پہلے توحید کی نزاکت کے متعلق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ پھر ان شاء اللہ وضاحت سے ذکر کروں گا کہ اس آیت سے کیا مراد ہے؟ شرک کی مذمت: شرک ایک ایسا مہلک مرض ہے کہ جب کسی کو لگ جائے تو اسے کسی کام کا نہیں چھوڑتا۔ زندگی کا سارا نقشہ بدل کر رکھ دیتا ہے۔ جس طرح طبعی بیماریوں میں دل کا اختلاج سارے جسم کا نظام بگاڑ دیتا ہے۔ اسی طرح مشرک کا مرض تمام روحانی صحت کا قلع قمع کر دیتا ہے اور انسان کی ساری زندگی اضطراب کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو سب نیک اعمال کے ضائع ہو جانے کا موجب ٹھہرایا ہے۔ عام آدمی کا تو کیا ذِکر، سید المرسلین امام المتقین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لَئِنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ (الزمر: ۶۵) یعنی اگر آپ بھی شرک کا ارتکاب کر بیٹھیں تو آپ کے بھی سب اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ اس لئے دیگر گناہوں کا مرتکب تو اپنے گناہوں کی سزا پا کر یا بخششِ خداوندی سے بغیر سزا