کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 5
جائے تب بھی اس پر کامیاب بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ ہمیں یقین ہے کہ ملک میں جرائم کے کاروبار کا بازار سرد پڑ چکا ہوتا اور مجرم ضمیر کے لئے ممکن نہ ہوتا کہ وہ امن عامہ میں خلل ڈالے یا اسلامی قلب و نگاہ کی لطیف حسیات پر بوجھ بننے کا حوصلہ کر سے۔ اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَافَّةً (اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ) کا حاصل بھی یہی ہے کہ اسلامی اقدار اور اعمال سے تعلق وقتی نہ ہو، ٹھس ہو۔ جذبانی نہ ہو، حقیقی ہو۔ جزوی نہ ہو، ہمہ گیر ہو۔ کاروباری نہ ہو، جذبۂ تعمیل کا حاصل اور بینا اور غیور قلب و نگاہ کی اُمنگوں کا ترجمان ہو۔ اس طرزِ حیات اور یقینِ محکم کے غیر وہ ’در نایاب‘‘ ہاتھ نہیں آتا جو ہم کو مطلوب ہے۔ اس کے علاوہ اس اغوأ کے سلسلہ میں کچھ لوگوں کے دلوں میں ناگفتہ بہ شکوک و شہات بھی ہیں ، ان کا ازالہ بھی ضروری ہے اور حکومت کو چاہئے کہ اب اسلامی زندگی کے احیاء اور استحکام کے لئے سنجیدہ کوشش کرے جس کے بعد نہ کسی بچے اور خاتون کے اغواء کا خوف باقی رہتا ہے اور نہ ہی قوم اور ملک کے اغواء ہو جانے کے امکانات باقی رہ سکتے ہیں ۔ ملک پر جتنی آفت آئی ہے، وہ اسی بے یقینی اور اسلام سے بے تعلقی کا نتیجہ ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ مجیب اغواء ہوتا، مشرقی پاکستان کو پاؤں لگتے اور ہمیں چھوڑ کر کسی مکار اور دغا باز دشمن کے ساتھ بھاگ اُٹھنے کی سوچتا۔