کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 43
سید سلیمان ندوی نے اسد بن جاحل ابن منقد ثوری، ابو سفیان کلبی اور ابو طالب کے بعض اشعار کا حوالہ دے کر اس کی توثیق کی ہے اور یہ قرین حقیقت ہے کیونکہ تمام سیاسی زبانوں میں عربہ، صحرا اور بادیہ کا مفہوم رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا نام عربہ اور عرب ہو گیا۔ قرآن کریم میں عرب کا لفظ ملک عرب کے لئے کہیں نہیں بولا گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی سکونت کے ذِکر میں وادیٔ غیر ذی زرع یعنی وادی ناقابلِ کاشت بولا گیا ہے اور یہ لفظِ عرب کا بعینہٖ لفظی ترجم ہے۔ حضرت مسیح سے ایک ہزار برس پہلے حضرت سلیمان کے عہد میں لفظِ عرب کے استعمال کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جدہ کا نام حضرت عثمان کے وقت رکھا گیا۔ پہلا نام سجیلہ تھا جدہ ٹھیک ٹھیک وہاں تو نہیں لیکن اس سے ہٹ کر اس کی جگہ آباد کیا گیا۔ السنہ کی ایک روایت کے مطابق جدہ کے معنی ساحل کے ہیں ۔ ایک دوسری روایت کے مطابق وہ حصہ جہاں زمین پانی سے کٹ جاتی ہے۔ لغت میں جدہ کے معنی، دادی اور نانی کے بھی ہیں ۔ یہاں حضرت حوا کی قبر ہے۔ ممکن ہے اسی رعایت سے اس کا نام جدہ کر دیا گیا ہو۔ جدہ اب نانی ہے نہ دادی۔ وہ نئی تہذیب کی ساحلی محبوباؤں میں سے ایک ہے۔ شعرائے عرب سے کسی نے کہا ہے۔ محبوبہ کے دو حصے ہیں ۔ ایک سراسر محبت کے لئے دوسرا شوہر کا جس پر کبھی آنچ نہیں آتی۔ جدہ انہی شاعروں کے تصورو تخیل کا سراپا ہے لیکن محمل سے باہر آچکا اور تہذیب کے ہاتھ میں تیغِ براں کی طرح ہے۔ اب امرد القیس ہے نہ نابغہ زیبانی۔ زہیر بن ابی سلمی ہے نہ عنترہ عنسی، عمر بن کلثوم ہے نہ طرفہ بن العبد اعشیٰ۔ قیس ہے نہ حارث بن حلزہ، لبید بن ربیعہ ہے نہ امیہ بن ابی الصلت، کعب بن زہیر ہے نہ عمرو بن معدیکرب، خنساء ہے نہ حسان بن ثابت۔ حطیہ ہے نہ نابغہ الحمدی۔ عمر بن ابی ربیعہ ہے نہ اخطل، فرزوق ہے نہ جریر جتبٰی ہے۔ نہ ابو تمام ابو العلاء معری ہے نہ شریف رضی۔ اب ان کے تذکرے ہی رہ گئے ہیں ۔ جدہ شاید ان تذکروں سے بھی خالی ہے۔ اس کے چہرے مہرے پر قدامت کی برائے نام تیوری بھی نہیں چڑھی ہے۔ وہ ان جھریوں پر گزارا نہیں کر رہا۔ بلکہ اس کی سج دھج