کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 4
طریق کار اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کسی گتھی کو سلجھانا ہی صحیح طریق کار ہوتا ہے۔ اس کو وقار کا مسئلہ بنانا مزید مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اس لئے شاطرانہ چالیں چلنے سے پرہیز کیا جائے اور قائدانہ سنجیدگی کو ملحوظ رکھا جائے۔ رسوائے زمانہ ۳۵ء ایکٹ کی بنیاد پر پیپلز پارٹی نے اپنے اقتدار کے سفر کے آغاز کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ صرف دور رس نتائج کا حامل نہیں ہے، بلکہ تینوں (پیپلز، نیپ اور جمعیۃ) جماعتوں کی ذہنیت کے مضمرات کا غماز بھی ہے۔ خاص کر اس کے ذریعے خاں لیاقت علی خاں کی ’’قرار دادِ مقاصد‘‘ کی نفی کر کے انہوں نے جو مثال قائم کی ہے ہو سکتا ہے کہ وہ اب: ؎ تاثر یا مے رود دیوار کج کی منہ بولتی تصویر بن کر رہ جائے۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ یہ لوگ کچھ ہوش کریں ۔ اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللهِ لاہور شہر میں سمن آباد سے طاہرہ سجاد اور فرخ سجاد کا اغواء نہایت شرمناک سانحہ ہے۔ مگر اس کو یوں اچھالا گیا ہے، جیسے ملک میں یہ واقعہ صرف پہلی دفعہ پیش آیا ہے۔ حالانکہ اغواء کے یہ کیس اب ملک میں ایک معمول بن گئے ہیں بلکہ ان کے اندر اب کوئی ندرت بھی نہیں رہی۔ جہاں کہیں اس قسم کی دھاندلی کے خلاف کبھی کوئی ہنگامہ برپا ہوا بھی ہے تو صرف اس لئے نہیں کہ اب انہوں نے حالات کی سنگینی کا احساس کیا ہے بلکہ بات صرف اتنی تھی کہ اب یار دوستووں کا کچھ موڈ ہی ایسا بن گیا تھا اس لئے گو ہم اس شرمناک جسارت کے خلاف اس منظم اور بروقت احتجاج کی قدر کرتے ہیں لیکن اس سے کسی ٹھوس اور دیرپا نتیجہ کی توقع عبث ہے۔ اس کے لئے تو وہ اسلامی غیرت، حمیت اور بصیرت درکار ہے جو لازوال حرارت پر مبنی ہو اور اتنی حساس ہو کہ جہاں کہیں اس کی پرچھائیاں نظر آئیں ، تڑپ جائے۔ وقتی اور ہنگامی قسم کی اس بے چینی کو اگر کاروباری نوعیت کی بے چینی نہ بھی کہا