کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 39
ہو رہی ہیں ۔ لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک کی خود آئند آوازیں شانِ اسلام کا پرچار کرتی محسوس ہوتی ہیں ۔ مست ہاتھیوں کے غول کی طرح گشت لگانے والے بے فکرے نوجوانوں کی ٹولیوں کی بجائے اب شریف انسانوں کی جماعتیں ایک دوسرے کو صلح و سلامتی کا پیام دیتی، اخوتِ نوعِ انسانی کا مظاہرہ کرتی اور رشد و ہدایت کا سبق دیتی نظر آتی ہیں ۔ عکاظ کے میلوں میں جمع ہو کر پتھروں کے تراشیدہ خداؤں کی بڑائی کا دعویٰ کرنے والے اب ربِ کعبہ کے سامنے سرِ نیاز جھکانے اور اس کے سامنے اپنی عبدیت کا زیادہ سے زیادہ اعتراف کرنے میں کوشاں نظر آتے ہیں ۔ آج سے چند برس پیشتر جو لوگ انسان کے سفلی خصائل کا چلتا پھرتا اشتہار تھے، آج عرفات کے میدان میں ضبط نفس اور صبر و تحمل کا بہترین نمونہ اور وقار و تمکنت کی ایک ایسی زندہ تصویر ہیں کہ جس میں لغویات کا نام و نشان تک نہیں ۔
یہ عرب کے بدوّ تھے، جاہل اور گنوار! لیکن آج ان سے زیادہ عالم فاضل اور مہذب ساری دنیا میں موجود نہیں ۔ یہ راہزن، لٹیرے، چور اور ڈاکو تھے لیکن آج یہ غیروں کے مال کی حفاظت اپنی جان کی بازی لگا کر کرتے ہیں ۔ یہ بد بو دار شراب پیتے تھے لیکن آج ان کے لباس خوشبؤں سے معطر تھے۔ یہ زانی تھے لیکن آج یہ دشمن کی عورتوں کی بھی عصمت کے محافظ ہیں ۔ یہ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے لیکن آج ان سا شفیق باپ کوئی نہیں ۔ یہ بات بات پر لڑتے جھگڑتے اور تلواریں کھینچ لیتے تھے لیکن آج یہ پوری دنیا کو صلح و آشتی کا پیغام دے رہے ہیں ۔
بلاشبہ یہ اس محسنِ انسانیت کا کمال ہے جس کا نام محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔
کردار کی عظمت:
آؤ اس محسنِ انسانیت رحمۃ للعالمین کو دیکھو، یہ یتیم ہے لیکن لوگ اس پر رشک کرتے ہیں یہ امی ہے لیکن لوگ اس کے علم کے کروڑویں حصے کا مالک ہونے کو باعثِ فخر اور عزت افزائی خیال کرتے ہیں ۔
آؤ! تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو، بسیرتِ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں تلاش کرو۔ اگر تم تاجر ہو تو بصرہ کے کارواں