کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 38
تھی لیکن دوسرے کو صرف چند برس تک چمکنے کی ضرورت تھی اور پھر تا قیامت اس کی روشنی کو تاریکی میں بدلنے والا کئی نہ تھا، ایک جلا سکتا تھا، جھلس سکتا تھا لیکن دوسرا پتھروں کو بھی موم کر سکتا تھا۔ ایک کی گرمی میں لو اور تپش تھی لیکن دوسرا ایسا کہ ابرِ باراں کی طرح ٹھنڈا اور قہرو غضب کی آگ کو رحمت و شفقت میں بدل دینے کی اہلیت رکھتا تھا۔ آج فلک کے ہر گوشہ سے یہ صدائیں بلند ہو رہی تھیں کہ اے ظلم و تشدد میں ڈوبے ہوئے انسانو! اے اجڑی ہوئی خلق اللہ! تمہیں مبارک ہو کہ محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے ہیں ۔ انقلاب: ناگاہ بحرِ زیست کے طوفاں اتر گئے لیلائے شب کے گیسوئے برہم سنور گئے ابرِ سیاہ مطلعِ عالم سے چھٹ گیا ظلمت شکست کھا گئی پانسا پلٹ گیا کھولا کسی کے ہاتھ نے اک دَورِ نو کا باب نکلا سوادِ مشرقِ بطحاء سے آفتاب ایک ایک ذرہ دیدۂ بیدار ہو گیا سارا جہاں بقعۂ انوار ہو گیا!!! یہ کیسا انقلاب تھا؟ یہ کون محسنِ انسانیت تھا جس نے آن کی آن میں کایا پلٹ کر رکھ دی۔ صرف چند برسوں میں صفا اور مروہ کی پہاڑیوں ، منیٰ، عرفات، مزدلفہ کے میدانوں ، حرم کعبہ کی دیواروں ، مدینہ کے نخلستانوں اور مکہ کی عمارتوں نے ہزاروں واقعات اور انقلابات دیکھ ڈالے۔ اب معبدِ ابراہیمی کی چھت پر سے ہبل کا مجسمہ غائب ہو چکا تھا۔ خانہ کعبۂ کی چار دیواری بتوں کی نجاست سے پاک نظر آتی ہے۔ بیت اللہ شریف کا طواف کرنے والے لوگ اب بھی ہزاروں کی تعداد میں نظر آتے ہیں ۔ لیکن اب ان کے جسم عریاں نہیں ، احرام کی چادریں زیب تن کئے ہوئے شرفِ انسانیت کا اعلان کر رہے ہیں ۔ عورتیں اب بھی اس گروہ میں موجود ہیں لیکن اب ان میں سے پہلے کی سی بے حیائی و بے باکی مفقود ہے۔ ہجوم اب بھی منیٰ و عرفات کے میدانوں ، مزدلفہ کی گھاٹیوں اور صفا و مروہ کی پہاڑیوں پر دکھائی دے رہا ہے لیکن لہو و لعب میں گھرے ہوئے انسانوں سے بے مقصد شور و شغب کی بجائے اب تکبیر و تحلیل کی آوازیں بلند