کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 37
یکایک ہوئی غیرتِ حق کو حرکت
بڑھا جانب بو قبیس ابرِ رحمت!
قبولیت دعا:
اب وہ وقت آگیا تھا کہ حضرتِ خلیل علیہ السلام کی دعا شرفِ قبولیت حاصل کرتی:
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اے ہمارے رب! (جب میری اولاد راہِ حق سے بھٹک جائے تو) ان میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمائیے گا جو انہی میں سے ہو اور ان کو کتاب و حکمت سکھائے (ان کو پاک کرے (اے اللہ! ہماری یہ دعا قبول فرما) کہ ٹھیک تو غالب صاحبِ حکمت ہے۔
ظہورِ قدسی:
یہی وہ موقع تھا کہ کوئی خورشیدِ جہانتاب طلوع ہوتا جو ظلمات کو چاک کر کے اپنی نورانی کرنوں سے ہر طرف ضیا پاشیاں کرتا ہوا گوشے گوشے کو منور کرتا چلا جاتا جو وحشت و بربریت، ظلم و ستم اور کفر و طغیان کے ان بحرِ ناپید اکنار کو آن کی آن میں خشک کر ڈالتا۔
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل علیہ السلام اور نویدِ مسیحا علیہ السلام !
دو شنبہ ۹ ربیع الاول کا وہ دن کتنا مبارک تھا، آج ایک کی بجائے دو سورج طلوع ہوئے، لیکن کس قدر فرق تھا ان دونوں میں ۔ ایک سورج تو ظاہری تاریکیوں کو دور کر رہا تھا لیکن دوسرا تاریک اور نہاں خانۂ قلوب کو منور کرنے کی بھی استطاعت رکھتا تھا، ایک کی قسمت میں یہی لکھا تھا ہ خواہ کتنا چمکو، رات کی تاریکیاں ضرور تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لیں گی لیکن دوسرا رات اور تاریکی کے لفظ سے ناآشنا تھا۔ یہ ہر دم روشن اور ہمہ وقت تابندہ تھا۔ ایک کو روشنی پھیلانے کے لئے ہر روز طلوع ہونے کی ضرورت