کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 36
’’ہم اپنے دشمنوں کو آگ کی نذر کر دیتے ہیں ، ان کی حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کر ڈالتے ہیں ، بچوں کو تیروں کا نشانہ بنا دیتے ہیں ، ہم ان کے بوڑھوں پر بھی رحم نہیں کرتے تاکہ دشمنوں کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ ہم دشمن کو تہ تیغ کرنے کے لئے برسوں تک اپنی تلواریں بے نیام رکھ سکتے ہیں ۔‘‘ ’’ہمارے دشمنوں کی قبروں میں اندھیرا رہتا ہے کیونکہ ان میں ہمارے قبیلہ کے افراد سے ٹکر لینے اور اپنے مقتولین کا قصاص لینے کی جرأت نہیں ہتی۔‘‘ ’’ہم ایک جان کے بدلے دشمن کی دس دس اور بیس بیس جانیں بطور سود وصول کرتے ہیں ۔‘‘ ’’ہم مصاہرت کے قائل نہیں ۔ اس لئے اپنی بیٹیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دیتے ہیں ۔‘‘ ’’آج ہبل کی سر بلندی کا دن ہے۔ آج لات، منات، عزیٰ، ود، سواع، یعوق اور نسر کے ماننے والوں کی عظمت کا دن ہے۔ دنیا کی کوئی قوم ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ کوئی نہیں جو ہم سے آنکھ ملانے کی جرأت کرے۔‘‘ یہ عکاظ کا میلہ تھا، جہاں جا بجا اسی قسم کے بلکہ اس سے بھی بدتر تماشے چشمِ فلک کو دکھائے جا رہے تھے اور صاف نظر آرہا تھا کہ نوعِ انسانی ہر قسم کے روحانی اور اخلاقی تسفل کا شکار ہو کر حیوانوں سے بھی بدتر ہو چکی ہے اور کسی کو شرفِ انسانیت کے تحفظ کا خیال تک نہیں تاکہ اپنے آپ کو بھیڑیوں ، کتوں اور جنگلی جانوروں سے ممتاز ثابت کر سکے۔ یہ سر زمین عرب تھی۔ یہاں رہزنی، اور قتل و غارت کو آبائی پیشوں کی حیثیت دے دی گئی تھی، یہاں فسق و فجور کی آندھیاں اُٹھتی تھیں اور ظلم و ستم کے بادل بن کر ہر سو چھا جاتی تھیں ۔ جہاں شیطنت عروج پر تھی اور انسانیت منہ چھپائے پھرتی تھی۔ جہاں فحاشی کی حکومت تھی اور عصیان و معصیت کا سکہ چلتا تھا۔ اولادِ آدم اپنے گناہوں کی سیاہی کے سمندر میں غوطے کھا رہی تھی کہ