کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 34
یہ وہ حالات ہیں ، جن کی وجہ سے پوری اسلامی دنیا موت و حیات کی کش مکش میں مبتلا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ اس برے حال میں بھی عالمِ اسلام اپنی بگڑی بنانے کے لئے خدا کی طرف رجوع کرنے کی بجائے انہی منکریں ، خدا کی راہ دیکھے جا رہے ہیں ۔ اس لئے خدا کے قہر و غضب کی بھٹی بھی گرم سے گرم تر ہوتی جا رہی ہے۔ مادی اسباب اور وسائل کی اہمیت سے انکار نہیں ، لیکن یہ خدا بھی نہیں ہیں ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے وسائل آپ کے لئے رحمت اور خیر و برکت کا موجب بنیں تو خدا کو دھوکا دینا چھوڑ دیں ، بے یقینی پر نظر ثانی کریں ، اپنے اندر خود اعتمادی، وحدت اور زندہ قوموں کی طرح نگاہ میں آفاقیت اور ولولوں میں ہمہ گیری پیدا کریں ۔ اب وقت ہے کہ آپ اپنی شخصی اور اجتماعی اصلاح حال کے لئے پوری درد مندی کے ساتھ ایک دوسرے کو تھامیں ، ان حرکات اور اعمال سے پرہیز کیا جائے جن سے اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں ، افتراق اور انتشار کی راہیں ، بہت بڑی لعنتیں ہیں ، ان سے خود بھی بچئے اور دوسرے بھائیوں کو بھی بچائیے۔ ملی وحدت کے احیاء اور صالح قیادت برپا کرنے کے لئے متحد ہو کر کوشش کریں ۔ یہ بہت بڑی رحمتیں ہیں بس ان کا دامن تھام لیں ۔ یقین کیجئے! کفر کو اپنے بد نتائج کا مزہ چکھنے کے لئے تو مہلت مل جاتی ہے لیکن بے عملی، بے یقینی اور بد عملی کے روح فرسا نتائج کے ظہور دیر نہیں ہوا کرتی۔ خدا کے ہاں اس سلسلہ میں مہلت کا کوئی جواز مذکور ہی نہیں ہے۔ اس لئے اگر باوقار جینا ہے تو آنکھیں کھولیں ۔ غلط طرزِ حیات سے توبہ کریں ۔ خدا ضرور آپ کی مدد کرے گا۔ ان شاء اللہ۔