کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 33
دنیا کے پیار کی ایک بدترین مثال ہے۔ کیونکہ جسے خدا سے تعلق ہوتا ہے وہ اس کے ہاں مہمان ہونے کے لئے مضطرب رہتا ہے یا کم از کم اتنا تو ضرور کہتا ہے کہ ’’الٰہی جب تک میرا جینا میرے دین و دنیا کے لئے مفید ہو، زندہ رکھیو اور جب مضر ہ تو بس اپنے ہاں بلا لیجئو۔ قرآن مجید کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اس حد تک اندھے ہو گئے تھے کہ وہ خدا کے نام پر تہمتیں بیچتے تھے۔ یَکْتُبُوْنَ الْکِتٰبَ بِاَیْدِیْھِمْ ثُمَّ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ لِیَشْتَرُوْا بِه ثَمَنًا قَلِيْلًا (پ۱۔ بقره۔ ع۹) اپنے ہاتھوں سے كتاب لکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ یہ خدا کے پاس سے (اتری) ہے تاکہ اس طرح تھوڑے سے دام کھرے کر لیں ۔ آخرت فراموشی کا منظر اور ہی درد ناک ہے، ہو سکتا ہے کہ یہودی ایسے بھی ہوں ، جن کو قیامت بھی کبھی یاد آجاتی ہو لیکن آج کل یہاں تو یہ بھی ملاؤں کا ایک ڈھکو سلہ سمجھا جانے لگا ہے۔ وہ عظیم طاقتیں جو اس وقت اَنَا وَلَا غَیْرِیْ کے ناقوس بجا رہی ہیں ۔ سب کی سب کفر و جحود کی راہ پر گامزن ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ کفر کو کفر سے کوئی کھٹکا نہیں ۔ اس لئے ان میں سے کسی چھوٹی سی چھوٹی ریاست کو بھی ان سے کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی یہ ان کے اندرونی معاملات میں کچھ زیادہ دخل دیتی ہیں ، لیکن عالمِ اسلام کو بالکل معاف نہیں کر رہیں کیونکہ وہ ان سے اس امر میں خائف ہیں کہ اگر یہ قوم بیدار ہو گئی تو کفر کی چودھراہٹ ختم ہو جائے گی کیونکہ اس قوم میں جنون کی حد تک تبلیغ کا جذبہ ہے اور تبلیغ و اصلاح کا یہ جوش جنوں نسل اور جغرافیہ کی حدود سے بالکل بے تعلق اور اس سے بالاتر ہے۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ ائمۂ کفر و شرک کو پھر کبھی دبانے کے قابل ہو جائیں ۔ ان دساوس کی بنا پر، پورے عالمِ اسلام کے سلسلہ میں وہ سب گہری سازشوں میں مصروف ہیں اور جب داؤ لگتا ہے، گھاؤ لگانے سے نہیں چوکتے۔ آثار بتاتے ہیں کہ جد کانفرنس کے بعد ان کی سازشیں اور تیر ہو جائیں گی۔ یہ آپ کو کبھی متحد نہ ہونے دیں گی اور نہ ہی یہ اسلامی طرزِ حیات کو آپ کے لئے برداشت کریں گی۔