کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 32
مَا الْوَھَنُ؟ قَالَ حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاھِيَةُ الْمَوْتِ [1]
وہ وقت قریب ہے کہ مختلف قومیں تمہیں کھانے کو ایک دوسرے کو بلا کر لائیں گی جیسا کہ کھانے والے، کاسۂ طعام کے گرد جمع ہونے کے لئے ایک دوسرے کو بلایا کرتے ہیں ۔ اس پر کسی نے پوچھا:
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اس دِن ہم تھوڑے ہوں گے؟
فرمایا:۔ ’’نہیں ! بلکہ اس دن تم کہیں زیادہ ہو گے لیکن جیسے پانی پر جھاگ یا کوڑا کرکٹ۔
ان کے سینوں سے اللہ تعالیٰ تمہارا رعب کھرچ ڈالے گا اور خود تمہارے اندر دہن (کمزوری) پیدا کر دے گا۔‘‘
کسی نے عرض کیا: ’’جناب صلی اللہ علیہ وسلم ! دہن کیا شے ہے؟‘‘
فرمایا: ’’دنیا کا پیار اور موت سے نفرت۔‘‘
حدیثِ بالا کے سیاق سے محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ایک ایسا دلچسپ شکار بن جائیں گے۔ جن کے شکار کو دنیا ایک دلچسپ تفریح اور محبوب شغل بنا لے گی اور نہایت بے تکلفی کے ساتھ ہنسنے کے لئے ان کے مقدر کے ساتھ کھیلے گی۔ وجہ؟ فرمایا: دنیا کا پیار اور موت سے نفرت۔
دنیا کا پیار: عظیم ملّی مقاصد اور مقامِ عزیمت سے بے توجہی اور فوائدِ عاجلہ کے لئے سرمدی مکارمِ حیات کو بیج کھانے سے دریغ نہ کرنا، دنیا کا پیار کہلاتا ہے۔
موت سے نفرت کے معنی ہیں ۔ بزدلی، اخروی نوامیس سے عدم دلچپسی، عظیم ملی اقدار کی راہ میں سر فروشی سے کترانا، سستی شہرت، سستی نجات اور سستی فلاح و بہبود کے خوابوں میں مست اور چور رہنا۔
قرآنِ حکیم کی نگاہ میں یہ یہودیت ہے۔
یَوَدُّ اَحَدُھُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ (پ۱ سورة بقره۔ ع۱۱)
ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ اے کاش! اس کی عمر ہزار سال کی ہو۔
[1] ابو داؤد۔ باب فی تداعی الامم علی السلام