کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 31
نہیں ناممکن ہوتی ہے اس لئے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ پوری قوم ان کی ہم مشرب اور ہم نوا بن جائے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مسلم عوام کے ساتھ کچھ اسی طرح کا کھیل کھیلا گیا ہے جس سے وہ بہک گئے ہیں ۔ اس بد عملی اور بے راہ روی کے بعد نظریۂ حیات اور منزل کی بات باقی تھی۔ اس کا علاج یہ سوچا گیا کہ عوام کالانعام کو ’’پیٹ‘‘ کے گرد جمع کر دیا جائے تاکہ ان کے سامنے پہلے روٹی کی بات رہے، پھر ایمان کی، چنانچہ پچھلے دنوں میں ایک رہنما نے پوری قوم کو اسی فکر میں پختہ کرنے کے لئے یہ دلیل مہیا کی کہ حدیث کی رو سے اگر بھوک لگی ہو تو پہلے پیٹ پوجا کر لی جائے، پھر نماز پڑھی جائے۔ ظاہر ہے اس سے منزل بھی بدل گئی اور نظریۂ حیات بھی ایک تابع مہمل ہو کر رہ گیا۔ اس سے بڑھ کر دین پر اور کیا ظلم ہو سکتا ہے کہ دین کو ہی اس سے غافلِ دنیا بنانے کے لئے استعمال کیا جانے لگے؟ سیاسی کھلنڈروں نے اس گمراہ کُن نعرہ کے ذریعے عوام کا جو استحصال کیا،ردعمل کے طور پر اس کا یہ قدرتی نتیجہ برآمد ہوا کہ عوام کا خد اسلام سے بھی اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ اس لئے اسلامی فکر و عمل سے مزید دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ خاص کر نئی نسل۔ ان گزارشات سے غرض یہ نہیں کہ سارا قصور ہمارا اپنا ہے۔ بیرونی شرارتوں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہ ہے اور صرف آتا ہے کہ وہ ایسا چاہتے بھی تھے اور ہمارے اندرونی معاملات اور داخلی فضا بھی ان کے لئے سازگار تھی اور بس۔ پھر آہی گئے۔ یوں سمجھئے کہ اندرونی طور پر ہم نے اپنے اغراض، ذہنیت اور کردار کا ایک ایسا دستر خواں تیار کر چکے ہیں جس پر دشمنانِ اسلام بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث تقریباً تقریباً یہ ساری تفصیل بیان کی گئی ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: یُوْشِکُ الْاُمَمُ اَنْ تَدَاعٰي عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَي الْاَكَلَةُ اِلٰي قَصْعَتِھَا فَقَالَ قَائِلٌ وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ بَلْ يَوْمَئِذً كَثِيْرٌ وَلٰكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كُغُثَاءِ السَّيْلِ وَلَينْزِعَنَّ اللهُ مِنْ صُدُوْرِ عَدُوِّكُمْ الْمَھَابَةَ مِنْكُمْ وَلَيَقْذِ فَنَّ اللهُ فِيْ قُلُوْبِكُمُ الْوَھْنَ۔ قَالَ قَائِلٌ يَا رَسُوْلَ اللهِ وَ