کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 30
سے پیچھے نہیں رہا۔ اس لئے اس کے پلے میں تقریباً تقریباً ہر قسم کی پسپائی اور ہر رنگ کی رسوائی کے نمونے جمع ہو گئے ہیں ۔ دعوائے ایمانی کے ساتھ اس کی ’’بے یقینی‘‘ سر فہرست ہے۔ اس لئے بے عملی رنگ لا رہی ہے۔ جب اس بے عملی کے ساتھ بد عملی کا پیوند بھی لگ جائے تو اس وقت جو نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں ۔ ان کی سنگینی کا اندازہ خود ہی فرما لیجئے۔ یعنی اسلام اور نظریۂ حیات کے سلسلہ میں بے یقینی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ اس کا کچھ کرنے کو جی ہی نہیں چاہتا۔ لیکن جب کیے بغیر گزارہ نہیں ہتا تو پھر ’’ہیرا پھیری‘‘ کے ذریعے چام کے دام چلانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ظاہر ہے فریب دہی کا یہ بازار زیادہ دیر گرم نہیں رہ سکتا۔ اور آپ دیکھ بھی رہے ہیں کہ اب دنیا میں عالم اسلام کا کام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، چار سُو ایک سناٹا اور ہُو کا سماں بندھ گیا ہے اور ہر طرف وحشت، ہر اس اور بے اطمینانی کی فضا طاری ہو رہی ہے۔ اور ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کل تک اور کیا کیا ہونے کو ہے۔ مسلمانانِ عالم پر جو افتاد پڑ رہی ہے، وہ کسی بیرونی دھاندلی سے زیادہ ان کی اندرونی بنیادی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ اپنی شخصی زندگی کی حد تک ناگفتہ بہ صورت حال سے دو چار ہیں ۔ خدا خوفی، نیک عملی، مسنون طرزِ حیات اور اخلاص پورے معاشرہ سے رخصت ہو چکے ہیں ۔ بے خدا زندگی، آآوارہ سفر حیات اور غیر اخلاقی اور غیر اسلامی نقوش زندگی پر اصرار، ان کی گھٹی میں پڑ گیا ہے۔ خاص کر مسلم عوام کو ایک طویل عرصہ سے جس ناسازگار فضا اور قیادت سے پالا پڑ رہا ہے۔ اس نے ملت اسلامیہ کے مستقل کو خاصہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی قیادت، غیر دیندار لوگوں میں چلی گئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ: خدا نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں ! خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے؟ اس نااہل قیادت نے علاقائی عصبیت کو گرما کر، پورے عالمِ اسلام کو دو دو بالشت کی ٹکڑیوں میں تقسیم کر دیا ہے جس سے مسلمانوں کا ملی اتحاد تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اربابِ اقتدار عملی لحاظ سے ’’ننگ دیں ‘‘ ہوں تو دینی قیادت ان کے لئے مشکل