کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 28
سے کافی درے اور پرے رہتا ہے۔ اس سے صرف سادہ سی تفریح اور بے ضرر سی ایک تقریب مسرت آسان ہو جاتی ہے اور جس امت کو ’’کار جہاں کے بارِ امانت‘‘ کی ذمہ داری کا مرحلہ در پیش ہو اس کو اپنی تھکن دور کرنے اور تازہ دم ہونے کے لئے اتنی سی ’’تقریب شادی‘‘ کافی ہوتی ہے۔ اس سے مزید کی توقع اور انتظار در اصل ملت اسلامیہ کی ذمہ داریوں سے بے خبری کا نتیجہ ہے۔
حضرت حسان رضی اللہ عنہ سے ان کا کلام سننا سماع کے جواز کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عمل سے بھی استدلال کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا فلاں صحابی رضی اللہ عنہ نے فلاں فلاں سے شاعرانہ کلام سنا۔ اس لئے سماع اور غنا جائز ہے۔
دراصل یار لوگوں نے منکرینِ سماع کو ایک بد ذوق ٹولہ تصور کر لیا ہے، اس لئے وہ اس قسم کی مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں ۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے۔ حسنِ آواز جو مسنون لائنوں کا پابند ہے۔ ہمیں بھی پسند ہے، ہمارے دل کو اچھا لگتا ہے اور پہروں سنتے رہیں ، تو دل نہیں بھرتا۔ لیکن بایں ہمہ، اس کو کارِ ثواب اور عبادت تصور کرنا مشکل ہے اور صوفیاءسے جو مابہ النزاع صورت ہے وہ صرف یہی ہے۔ (جاری ہے)