کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 27
میں ضرت طاؤس سے روایت کی ہے:
سئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ای الناس احسن صوتا للقراٰن واحسن قراءۃ قال من اذا سمعتہ یقرأ اریت انه یخشی اللہ قال طاؤس وکان طلق کذلک (دارمی)
حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے کسی نے پوچھا کہ حضور! قرآن کے سلسلہ میں لوگوں میں سب سے اچھی آواز اور سب سے اچھی قراءت کس کی ہوتی ہے؟ فرمایا جب تو اسے پڑھتا ہوئے سنے تو تجھے یوں محسوس ہو کہ اس پر خشیتِ الٰہی طاری ہے۔ حضرت طاؤس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت طلق کی یہی کیفیت تھی۔
ان روایات کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سامع پر بھی خشیت اور گریہ جیسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت عقبہ سے قرآن سنانے کو کہا تو ان سے قرأت سن کر رو پڑے تھے۔ خود یہی کیفیت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی تھی۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ قرأت کا یہ انداز بڑا جاذب اور پُر کشش ہوتا ہے اور قرآنِ پاک کے سلسلہ میں یہی ’’خوش الحانی‘‘ مطلوب ہے۔
ان گزارشات سے غرض یہ ہے کہ لحنِ داؤدی ہو یا قرآنِ حکیم کے سلسلہ کی خوش الحانی؟ اس کو معروف معنوں میں سماع اور غنا سے کوئی تعلق نہیں اس لئے ان سے سماع اور غنا کے لئے استدلال صحیح نہیں ہے۔
دف کا استعمال:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض تقریبات کے سلسلہ میں دف کے استعمال کی اجازت دی ہے جس کے یہ معنی بنا لیے گئے ہیں کہ ’’لہٰذا سماع اور موسیقی جائز ہے۔‘‘ ہمارے نزدیک یہ بھی غلط ہے کیونکہ دف کا یہ استعمال، اس سلسلہ کا نقطۂ آغاز نہیں بلکہ اس سلسلہ کی یہ اخیری حد اور کڑی ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے تقریب ملاقات اور گنگنانے کی ایک بے ضرر سی سبیل پیدا ہو جاتی ہے جو بجائے خود پُر مسرت ماحول کا سماں پیدا کر دیتی ہے۔ اس کے استعمال سے مسرفانہ سر مستی اور عیاشانہ ترنگوں کی تخلیق کے امکانات کمزور رہتے ہیں ۔ دف کی دنیا اتنی محدود ہوتی ہے کہ انسان حدود فراموش ہاؤ ہُو اور ناؤ نوشی