کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 26
الله تعالیٰ كسی چیز پر اتنی توجہ نہیں دیتا، جتنی توجہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر فرمائی جبکہ وہ خوبصورت آواز سے قرآن پڑھتے ہیں ۔
لیکن اس خوش آوازی کو اس لحن اور غنا سے کوئی نسبت نہیں ، جو عجمی ہے جس میں موسیقار اور قوال کی گلوکاری کا رنگ بھرا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس اندازِ سماع اور غنا سے تلاوت کرنے کو آپ نے برا منایا ہے:
اقرءوا القران بلحون العرب واصواتھا وایاکم ولحون اھل العشق ولحون اھل الکتابین وسیجیٔ قوم یرجعون بالقراٰن ترجیع الغناء والنوح لا یجاوزحنا جرھم مفتونة قلوبھم وقلوب الذین یعجبھم شانھم (مشکوٰۃ بحواله شعب الایمان ورزین)
قرآن کو عربی لے اور آواز سے پڑھا کرو۔ عشاق اور اہل کتاب کی لَے اور لحن سے بچو میرے بعد ایک روہ آئے گا جو قرآن کو گانوں اور نوحہ کے طرز پر بنا سنوار کر پڑھے گا۔ لیکن (حال ان کا یہ ہو گا کہ) قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اُترے ا۔ اس طرح پڑھنے والوں کے اور ان لوگوں کے جو ان کے اس طرز کے پڑھنے کو پسند کریں گے۔ دل فتنہ زدہ ہوں گے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حسن آواز تنہا کوئی کارِ ثواب نہیں ، اصل غرض کلامِ پاک سے طبعی مناسبت کا حصول ہے۔ بشرطیکہ یہ ذریعہ بھی بجائے خود فتنہ نہ ہو۔ یعنی گیت گانوں اور قوالوں کی دل آویز لے اور خوبصورت آواز میں قرآن بھی پڑھیں گے تو یہ خوش الحانی قرآن حکیم اور اس کی شانِ قرآن کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہو گی۔ باقی رہی یہ بات کہ خوبصورت آواز لَے کی پہچان کیا ہے کہ یہ غیر عجمی ہے؟ اس کے متعلق حضرت امام طیبی (ف ) فرماتے ہیں :
وذلک بالترتیل وتحسین الصوت بالتلیین والتحزین (مرقات ص ۱۱، ۵)
یعنی ترتیل اور خوش آوازی کا مطلب فروتنی اور خشیت کے ساتھ پڑھنا ہے۔
اس کی تائید دارمی کی اس مرسل روایت سے بھی ہوتی ہے جو انہوں ے ’’باب التغنی بالقرآن ج ۲، ص ۴۷۱