کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 25
جتنے ہیر رانجھے اور سسی پنوں تیار کئے ہیں ، اور نئی نسل کو اس نے جس طرح گمراہ کیا ہے، وہ اب کوئی راز نہیں رہا۔ اس کے بعد بھی اس کو کوئی شخص ’’روحانیت‘‘ کی ترقی کا زینہ تصور کرتا ہے تو اسے اس کی اپنی ذاتی کرامت ہی کہیں گے، ورنہ بات کہنے کی نہیں ہے۔ غلط استدلال: کچھ لوگ سماع اور غنا کے جواز اور روحانی سرمدیت کے لئے ایسی ایسی باتوں سے استدلال کرتے ہیں ، جن کو پڑھ کر ان پر ترس ہی آتا ہے۔ مثلاً یہ کہ: ’’حضرت داوؤد علیہ السلام بڑے خوش الحان تھے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے (باب حسن الصوت بالقراءۃ) تو ہمارے نزدیک حسنِ صوت (خوبصورت آواز) کوئی گناہ نہیں ۔ نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ایسے گلے کو کھرچ کر بالکل بیکار کر دنا چاہئے بلکہ یہ ہے کہ قومِ ہنود اور یہود کی طرح اس کو جزو عبادت نہ بنا لیا جائے کیونکہ خوش الحان ہونا اور شے ہے اور اس کو عبادت تصور کرنا بالکل الگ بات ہے۔ ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ چونکہ خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرنے کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پسند کیا ہے۔ لہٰذا ’’سماع‘‘ جائز ہے۔ دراصل یہ بھی ایک مغالطہ ہے۔ کیونکہ ہم بھی اس کو ناجائز نہیں کہتے بلکہ جائز سے بڑھ کر مستحسن سمجھتے ہیں ، کیونکہ تلاوتِ کلام پاک ہو اور خوبصورت لے اور جاذب خوش آوازی کے ساتھ ہو؟ تو وہ سونے پر سہاگہ والی بات ہوتی ہے۔ صحابہ میں حضرت عقبہ بن عامری رضی اللہ عنہ (ف ۵۸ھ) حضرت طلق بن علی یمامی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (ف ۵۲ھ) بڑے خوش الحان تھے، ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عقبہ یمانی سے قرآن سنانے کو کہا، چنانچہ وہ پڑھتے رہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ روتے رہے، اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے بھی فرمایا: ذکرنا ربنا (عینی) ہمیں ہمارے رب کی یاد تازہ کراؤ۔ مقصد یہ تھا کہ خوش آواز سے قرآن سناؤ، کیونکہ اس طرح قرآن حمید کی تلاوت دل کو اچھی لگتی ہے۔ اس لئے خوش آ واز سے پڑھنا دل پر مزید اثر کرتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے کہ: لم یاذن اللہ لشیء ما اذن للنبی صلی اللہ علیه وسلم یتغنی بالقراٰن [1]
[1] بخاري باب من لم يتغن بالقراٰن