کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 24
جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی امرطے فرماتے ہیں تو فرشتے وفادارانہ اپنے پر مارنے لگتے ہیں جیسے زنجیر صاف پتھر پر۔
کیا خوش الحانی اور مزامیر کی یہ جھنکاریں اسی قسم کی نوائے ازلی کے لئے مضراب کا کام دیتی ہیں اور ان ارضی فرشتہ صورتوں کی نفسیات بھی کچھ اس قسم کی نفسیات اور قلب و نگاہ کی بے تابانہ تحریکات بھی کچھ اس طرح وجد میں آجاتی ہیں ؟
یا یہ کہ یہ مادی جھنکاریں ، روحِ حیوانی کے لئے خوراک بنتی ہیں اور انہی حیوانی تقاضوں کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اگر اس کا دیانتدارانہ جواب معلوم ہو جائے تو بات کے سمجھنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگ سکتی۔
ہمارے نزدیک اس کے جواب کے سمجھنے کے لئے سماع (معہ لوازمات) کی تخلیقات کا مطالعہ کیا جائے، کہ اس کے ذریعے، روحانیت کا پلہ بھاری رہا ہے یا بہیمیت کا؟ اس لحاظ سے جواب بالکل واضح ہے کہ اس سے نفس و طاغوت کی امنگیں ہی مچلی ہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ توجہ الی اللہ اور طلبِ حق کی تحریک کو بھی اس سے کوئی فائدہ پہنچا؟ زبانی کلامی تو کہہ دینا شاید آسان ہو لیکن واقعات کی رو سے جواب بالکل نفی ہے۔
اس کے علاوہ انبیاءِ سابقین سے لے کے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے تزکیہ و طہارت کی تاریخ میں ایک نبی اور ہادی کا یہ دستور نظر نہیں آیا کہ انہوں نے معصیت کا زنگار دھونے، ملکوتیت کی نشوونما اور قرب و وصال کی منزلیں طے کرنے کے لئے نظام سماع اور سامعہ نواز موسیقی کو نسخۂ شفا سمجھا ہو یا کوئی ایسا خانقاہی نظام قائم کیا ہو جہاں طبلے کی تھاپ پر کسی مغنّی کے بولوں سے تزکیہ و طہارت کی خدمات لی گئی ہوں ؟ اگر نہیں کیا گیا اور یقیناً نہیں کیا گیا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس سے روحانیت کا ایاء یا اس کی تقویت کا تصور لینا اسلام نہیں ، سراپا عجمی ہے۔
جب ہم طب کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی یہ صاف ملتا ہے کہ جنسی کمزوریوں کے علاج کے لئے سماع اور غنا سے کام لیا جا سکتا ہے۔ اور لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ دورِ حاضر میں اس موسیقی نے