کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 23
بابل اور مصری مزامیر کو ترقی دے کر نئی نئی ایجادیں کی تھیں ۔ موجودہ زبور بھی گیتوں کا مجموعہ ہے جسے آپ بربط کے ساتھ گاتے تو کائنات پر نورانی نغموں کی بارش ہوتی۔‘‘
یہ پیرا گراف منکرینِ حدیث کے اس بڑے جغادری نے نقل کیا ہے، جو احادیث پاک میں کیڑے ڈالتے رہتے ہیں لیکن یہاں پر اسے نقل کر کے بڑی حکمت عملی سے چپ چاپ گزر گئے ہیں ۔
روحِ حیوانی یا روحانی:
ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ سرود، وہ سرودِ ازلی ہیں جو صدائے ’’اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ کی صدائے بازگشت محسوس ہوتے ہیں جو روحانیت کے لئے اپنے اندر قدرتی کشش رکھتے ہیں کہ:
’’ان کے انگ انگ سے ’’قالوابلیٰ قالوا بلیٰ‘‘ کی سرمستی وجد کرنے لگتی ہے اور ان کی روحانی ملکوتیت بیدار ہو جاتی ہے اور وہ ’’حق حق‘‘ بولا ٹھتی ہے۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن مسعودسے روایت ہے کہ جب اللہ وحی سے کلام کرتا ہے تو آسمانوں کے کانوں میں بھی اس کی بھنک پڑ جاتی ہے (چونکہ اس میں جلال و جمال اپنی پوری شان میں جلوہ گر ہوتے ہیں اس لئے ملائکہ پر ایک سکتہ سا طاری ہو جاتا ہے۔)
فاذا فرغ عن قلوبھم وسکن الصوت عرفوا انه الحق ونادوا ما زا قال ربکم قالوا الحق الحدیث (بخاری باب قول اللہ ولا تنفع الشفاعة)
تو جب ان کے دلوں سے سکتہ کی کیفیت کافور ہو جاتی ہے اور وہ (بے کیف) آواز تھم جاتی ہے (تو) وہ پہچان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے اور (لپک کر محبوب برحق کا ارشاد پوچھتے ہوئے) آوازیں دینے لگ جاتے ہیں کہ اوفو! بتاؤ بھی تمہارے رب نے کیا فرمایا آواز آتی ہے، حق فرمایا۔
بعض روایات میں آتا ہے:
اذا قضی اللہ الامر فی السماء ضرب الملائكة باجنحتھا فخضعانا لقوله کانه سلسلة علی صفوان