کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 22
اصل مابہ النزاع وہ سماع ہے جو تقرب کی نیت سے کیا جاتا ہے یا جو عیش و نشاط کی ضیافت طبع کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دونوں شرعی لحاظ سے حرام اور ناجائز ہیں ۔
صفیانہ سرمستی کے لئے سماع:
صوفیانہ سرمستی کے لئے سماع کی باتیں ، دراصل روحانیت نہیں ہیں ، روحانیت کا ایک واہمہ ہے اور یہ تصور عجم کے اللہ زارِ روحانیات کی دیانتدارانہ نقالی اور سرقہ ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک یہ ساز اور راگ معراجِ مازاغ کے سامان نہیں ہیں ، بلکہ بت شکن حنیف کی نگاہ بے نیاز کے انتشار اور پریشاں نظری کا نتیجہ ہیں ۔
اسلام کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ خوش الحانی، گو دل کو خوش لگتی ہے اور صرف اس حد تک گوارا بھی کی جا سکتی ہے لیکن اس کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں ملتا کہ قربِ الٰہی کے لئے یہ کوئی شرعی ذریعہ بھی ہے۔ ہاں قومِ ہندو، ملّتِ عیسائیہ اور ان کی ہم مشرب دوسری قوموں میں ’’قرب و وصال‘‘ کی منازل طے کرنے اور اوتار کی توجہ کے حصول کے لئے اس کو مؤثر ذریعہ ضرور قرار دیا گیا ہے۔ اس لئے ان کی پوجا پاٹ کے جتنے انداز ہیں سب میں بنسری کی تانوں ، ناقوس کی صداؤں اور سرتال کی سریلی دھنوں اور رقص و سرود کی مختلف النوع نواؤں کو جزوِ لا ینفک کی حیثیت حاصل ہے اور رہی ہے۔
’’توریت میں ہے کہ یہود خدا کی تسبیح و تقدیس رقص ہی کے ذریعے کرتے تھے۔۔۔۔
ارسطو نے اس کو فنونِ لطیفہ میں شمار کیا۔ اس کے نزدیک شعر اور رقص دونوں مساوی درجہ رکھتے ہیں ، اہل سپارٹا اپنے بچوں کو 5 سال کی عمر میں رقص سکھانے لگتے ہیں ۔ عموماً لڑکوں کے باپ اور استاد گاتے تھے اور وہ خود ناچتے تھے۔‘‘
(مقالہ تاریخ رقص از لطیف الدین لطیف۔ مطبوعہ محدث جلد ۱ عدد ۱۱)
وہم پرستانہ روحانیت کے نام پر گانوں باجوں کی تقدیس کا یہ تصور بالخصوص قوم یہود میں کافی تھا۔ اس لئے اس سلسلہ میں انہوں نے عجیب سی گپیں ہانکی ہیں ۔ چنانچہ یہودی روایات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:
’’حضرت داؤد علیہ السلام بڑے خوش الحان تھے اور (العیاذ باللہ) موسیقی کے ماہر تھے۔