کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 20
کثیف وارثوں اور شاطر ثقافتیوں نے عمداً پیدا کیے ہیں ۔
یہ وہ گھپلا اور غیر سنجیدہ دھاندلی ہے، جس نے ہمیں اس موضوع پر قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو عیاشی کرنا چاہتے ہیں وہ کم از کم اپنے گناہ کی شرم رکھنے کے لئے قرآن و حدیث کو استعمال کرنے سے گریز کریں ۔ یہ کیا ضروری ہے کہ جو بھی گناہ کیا جائے اس کے لئے کوئی نہ کوئی شرعی معذرت ضرور ہی ایجاد کی بجائے ویسے بھی ایسا کرنے سے کسی شے کی ماہیت نہیں بدل جایا کرتی۔ کتنی ہی لیپا پوتی کی جائے، بہرحال نہاں خانوں میں جو کچھ ہوتا ہے۔ اس سے اس کی واقعی حیثیت میں کوئی فرق نہیں آتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ وہ بزدلی کے بجائے جرأت سے کام لیں ۔ اگر مسرفانہ عیاشی ضرور ہی کرنی ہے تو گھونگھٹ کیوں ؟ آخر اور بھی بہت سی ایسی دھاندلیاں ہیں جن کے اختیار کرنے میں آپ اس قسم کے تکلفات کا سہارا لینے کا تکلف نہیں کیا کرتے، یہاں پر بھی اگر آپ اپنے اس اصول اور تعامل کو ملحوظ رکھیں گے تو یقین کیجئے! آپ پر آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ ہمیں خاص کر ان اداروں سے زیادہ گلہ ہے جو اسلام کے نام پر ’’تحقیقی مرکز‘‘ کی حیثیت سے وجود میں آئے ہیں اور ان میں ’’مولانا‘‘ قسم کے بڑے بڑے جغادری بھی براجمان ہیں ۔ انہیں بہرحال ان دنیا اروں کی ضیافت طبع کے لئے یہ مصنعی دین یہاں مہیا نہیں کرنا چاہئے۔ خواہ اس کے عوض کتنا ہی ان کو معاوضہ ہاتھ آئے۔ یہ خدا کی نگاہ میں ثَمَنًا قَلِیْلًا سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے لیکن اس کا انجام ’’خواری بسیار‘‘ سے بھی بڑھ کر ہو گا۔ العیاذ باللہ۔
کلامِ موزوں ، لحنِ حسیں اور اردۂ خیر کے ساتھ سننے کا نام ’’سماع‘‘ ہے۔ یہ خاص صوفیوں کی اصطلاح ہے۔
کلامِ موزوں اور لحنِ حسیں کی حد تک تو اہل دیں کے ایک طائفہ کے ساتھ مست اور رنگیلے شاہ بھی متفق نظر آتے ہیں ۔ لیکن اگلے مرحلہ یعنی ’’ارادۂ خیر‘‘ کی قید میں دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہو گئے ہیں ۔ مگر ہمیں صوفیاء سے بھی اس مرحلہ میں اختلاف ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک سادہ تفریح کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن اس کو ’’تقرب‘‘ کا ذریعہ سمجھنا غلط ہے۔ مزید تفصیل آئندہ سطور میں آئے گی۔ انشاء اللہ۔
سماع اور اہلِ سماع کی چند قسمیں ہیں ۔ ان کی تفصیل کے بعد قرآن و حدیث اور اکابر ائمہ کے فتاوی