کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 19
مسئلہ سماع قسطِ نمبر 1 جناب مولاناعزیز زبیدی شمارہ مارچ ۷۲ء میں ہم نے مولانا عزیز زبیدی صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’سماع، امام نابلسی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر‘‘ شائع کیا تھا جس میں زبیدی صاحب موصوف نے مجوزینِ سماع میں سے امام نابلسی کی ایک تصنیف ’’ایضاح الدلالات فی سماع الآمات‘‘ کے ایک اہم حصہ کی تلخیص پیش کر کے ان کا نقطۂ نظر واضح کیا تھا۔ ہم نے اس مسئلہ پر تفصیلی بحث اور صحیح نقطۂ نظر بادلائل پیش کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ لہٰذا حالیہ اشاعت میں ہم مولانا عزیز زبیدی صاحب ہی کے قلم سے اس مسئلہ پر ایک تفصیلی مضمون ہدیۂ قارئین کر رہے ہیں جس میں انہوں نے اس مسئلہ میں جملہ مغالطے اور مخالفین کے دلائل سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے جملہ شکوک و شبہات رفع ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ (ادارہ) سماع خاص ایک صوفیانہ اصطلاح ہے مگر افسوس! ثقافتی قسم کے لوگوں نے اس کو متداول موسیقی کا مترادف قرار دے ڈالا ہے۔ اسی طرح ’’غنا‘‘ بھی حدیث کی خاص ایک زبان ہے لیکن یار دوستوں نے اسے بھی ’’نور جہاں کا ترنم‘‘ تصور کر لیا ہے۔ دف کا استعمال، زیادہ سے زیادہ ایک حد جواز جہاں تک کوئی شخص جا سکتا ہے لیکن بلا نوش اُلٹے، انہوں نے اس کو اسی سلسلہ کا نقطۂ آغاز قرار دے کر زیادہ سے زیادہ اور حدود فراموش حد کے لئے اس کو وجہِ جواز بنایا اور پھر اس پر نظامِ موسیقی کی وہ ساری عمارت کھڑی کر ڈالی جو ان کی الڑھ ترنگوں کی مست پینگوں کے لئے بے خدا خمار اور مست الست سر مستیوں کی ضمانت دے سکتی ہے۔ بعض خام صوفیوں کے وجد کو رقص اور ان کی قوالی کو ’’تان سینی راگ و رنگ‘‘ کا شرعی ماخذ تصور کر کے لوگوں کے لئے انہوں نے مغالطے مہیا کیے۔ یہ مغالطے کسی علمی اور تحقیقی پس منظر کا حاصل نہیں ہیں بلکہ یہ سبھی کچھ نام نہاد فنونِ لطیفہ کے