کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 18
کے وہ علمی سفر کیے جن کا ہر ایک الگ الگ ابراہیم اور موسیٰ نے کیا تھا۔[1] یعنی ایک حضرت ابراہیم کی ہجرت اور دوسرا حضرت موسیٰ کا اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے کوہِ طور کا سفر جس میں آپ نے بالمشافہ اللہ سے کلام کی۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دادا حضرت ابراہیم (نیز اپنے والد حضرت اسماعیل) کے اسوہ کے طور پر مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔[2] اسی طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کی طرح اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ملاقات کے لئے معراج پر بلایا اور بالمشافہ شرفِ کلام بخشا اور عماد الدین نماز ودیعت فرمائی۔ (باقی آئندہ)
[1] واضح رہے کہ جس حدیث میں موسیٰ کی سختی کا ذِکر آیا ہے۔ اس میں حضرت ابراہیم کی نرم دلی کا بھی ذکر ہے کہ آپ کے باپ نے سنگسار کرنے کی دھمکیاں دیں، لیکن آپ جواب میں اللہ سے بخشش کی دعائیں کرنے کا وعدہ فرماتے رہے۔ جس کا ذِکر قرآنِ مجید نے بھی کیا ہے: قَالَ سَلٰمٌ عَلَیْکَ ط سَاَسْتَغْفِرُ لَکَ رَبِّیْ اِنَّه کَانَ بِیْ حَفِیًّا یعنی باپ کی دھمکیوں کے جواب میں فرماتے رہے: ’’اے باپ! تجھ پر سلامتی ہو۔ میں تیرے لئے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا۔ کیونکہ میرا رب مجھ سے بہت شفیق ہے۔ [2] اپنی ہجرت گا مکہ کو ابراہیم نے حرم ٹھہرایا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم ربی سے مدینہ کو حرم ٹھہرایا۔