کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 17
تو بظاہر فرعون سے نجات اور جان کے خوف کی وجہ سے لمبا چوڑا سفر کرایا جو درحقیقت نبوت کے حصول کا سفر تھا اور اسی کے نتیجہ میں بدین سے واپسی پر راستہ میں پہاڑ طور پر نبوت ملی پھر ان سے حصولِ علم کے قصد و ارادہ سے دوبارہ سفر کرایا اور طور پر بلا کر کتابِ شریعت ’’تورات‘‘ عطا فرمائی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ ستر ساتھیوں نے بھی سفر کیا جس کا ذکر قرآن مجید میں تفصیل سے موجود ہے۔[1] پھر جب موسیٰ کی زبان سے ایسے کلمے نکل گئے جو اللہ کو پسند نہ تھے تو عملی تربیت کے لئے بحرین تک کا سفر کرایا جس میں آپ کی ملاقات اللہ کے بندے خضر سے ہوئی۔ اس موقع پر آپ کے ساتھ، یوشع بن نون بھی تھے۔ اس سفر میں اگرچہ بالآخر آپ کو خضر نے ان یران کن افعال کے اسباب بھی بتا دیئے جن پر آپ صبر و سکوت نہ اختیار کر سکے لیکن اس سفر میں علمی اضافہ سے زیادہ عملی تربیت ہوئی۔ جس سے آپ کے جوش و خروش میں اعتدال پیدا ہوا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ آپ جابر نبی تھے۔ اسی جوشِ طبع کی بنا پر آپ سے قبل از نبوت ایک قبطی بھی قتل ہو گیا تھا۔[2] اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا تزکیۂ نفس کیا تاکہ یہ تزکیہ منصب نبوت کو جلا بخشے۔[3]
3. حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ کے ذکر کے بعد میں سید المرسلین امام المتقین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رحلات علم کا ذِکر کرتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ دونوں کے صفات و کمالات کا مجموعہ تھے۔ اسی طرح آپ نے دونوں طرح
[1] ملاحظہ ہو سورۃ الاعراف رکوع ۱۷ تا ۱۹
[2] اس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔ سورۃ القصص۔ رکوع ۲
[3] حضرت موسیٰ اور اللہ کے بندے خضر کی ملاقات اور دونوں کا سفر قرآن مجید نے تفصیلاً بیان کیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورۃ الکہف از آیت ۶۰ تا ۸۲۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک بادشاہ ذوالقرنین سکندر کو مشرق سے مغرب تک کا سفر کرانے کا ذِکر کیا ہے جس سے بے شمار علمی فوائد حاصل ہوئے۔