کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 15
اخذِ علم کے لئے اطراف، اکناف سے علم کے پیاسے حاضر ہوں ۔ رحلۃ کا مقام: لفظِ ’’رحلت‘‘ میں ایک عالم کی عجیب و غریب داستانیں ، دل سوز حکایتیں اور نصیحت آموز لعل و گوہر پنہاں ہیں ، گویا اس میں اسلامی تاریخ کا ایک عظیم باب مضمر ہے۔ یہ لفظ بذاتِ خود کوئی باعث کشش و برکت نہیں لیکن اس کا جلال و جمال، تقدس و توقیر اس مبارک گروہِ محدثین کے مقدس مشن کا رہینِ منت ہے جن کی وجہ سے یہ مقبولِ خلائق ہوا۔ بدو گفتم گلِ ناچیزے بودم ولیکن مدتے باگُل نشستم خیر القرون اور ان کے مابعد اسلامی ترقی و کمال کے ادوار میں علوم دینیہ سے عام مسلمانوں کو خاص شغف تھا۔ ان کا حصولِ علم کے لئے ولولہ و شغف، اس سے دل چسپی بلکہ شیفتگی جنون کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ کیا حاکم اور کیا محکوم! کیا ادنیٰ اور کیا اعلیٰ سب امیر و غریب اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے علاقوں کے علاقے چھان مارتے۔ کتنی بھی دور انہیں کسی چیز کے مل جانے کی امید ہوتی جا پہنچتے اور اس سلسلہ میں بڑے سے بڑے مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے۔ اس دور میں یہ مقولے زبان زد عام تھے۔ كلمة الحكمة ضالة المومن اينما وجدھا فھو لھا علم و حکمت کی بات مومن کی گم شدہ متاع ہے جہاں اس پائے پکڑ لیتا ہے۔ لوگوں کے اسی شوق و ذوق کو دیکھتے ہوئے بعض نا عاقبت اندیش لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کر کے ’’اطلبوا العلم ولو بالصین‘‘ (علم حاصل کرو خواہ چین میں ہو) جیسے مقولے بھی مشہور کر دیئے۔ غرض اس ظرف میں تشنگانِ علم و ہدایت کے لئے آب شفاف اور تریاقِ عراق موجود ہے۔ اس کی جتنی بھی تاریخ دیکھیں اتنے ہی عجیب و غریب انکشافات ہوتے ہیں ۔ خدا غریقِ رحمت کرے۔ ان بزرگانِ دین و ملت کو جن کے بلند گفتار و کردار اور ولولہ و شوق سے سفر جیسا کٹھن امر جس کے متعلق کہا جاتا ہے السفر سقر ولو كان ميلا مرجع الخلائق بنا۔ یہ تو ان لوگوں کا حال تھا جو علومِ نبوت کی تلاش میں سرگرداں ہوئے لیکن خود وہ انبیاء جن کے علم