کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 14
رحلۂ علم قسطِ نمبر 1 مولانا ثناء اللہ صاحب بلتستانی تلخیص و اضافہ: ادارہ لغوی تشریح: لفظِ ’’رحلت‘‘ رَحِلَ۔ يَرْحَلُ رَحْلًا۔ تَرْحَالًا۔ رِحْلَةً سے ہے جس کا مادہ ر، ح، ل یعنی رحل ہے جس کے معنی سفر اور کوچ کرنے کے ہیں ، جب اس کا صلہ ’’عن‘‘ آئے تو معنی کسی جگہ سے روانہ ہونے، کوچ کرنے، چلے جانے، ترکِ وطن کرنے، ہجرت کرنے اور نقل مکانی کے ہوتے ہیں ۔[1] ہمارے ہاں اس لفظ ’’رحلت‘‘ کا استعمال عموماً ’’موت‘‘ کے معنی میں ہوتا ہے، یعنی دنیا سے آخرت کی طرف کوچ کرنا۔ اردو میں اس لفظ کا خاص معنی میں استعمال دوسرے بہت سے عربی الفاظ کی مانند ہے۔ مثلاً ’’انتقال‘‘ عربی میں صرف ’’ایک حالت سے دوسری حالت میں جانے‘‘ کے لئے ہے لیکن اردو میں موت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ ’’وفات‘‘ عربی میں ’’پورے ادا کرنے‘‘ کے معنی میں ہے لیکن اردو اور فارسی میں ’’جاں بحق آفرین‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اصطلاحی معنی: محدثین کی اصطلاح میں لفظِ ’’رحلت‘‘ رحلۂ علم کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور وہ اس سے وہ سفر مراد لیتے ہیں جو حصولِ علم کی خاطر کیا جائے۔ ان کے ہاں سند عالی کی تلاش، علمی مقامات کی جستجو اور علوم و فنون کی طلب کے لئے سب سفر ’’رحلت‘‘ ہیں ۔ وہ ’’رُحلہ‘‘ اس عالم ربانی کو کہتے ہیں جس کے پاس
[1] ملاحظہ ہو المعجم الاعظم ج ۲۔ منتہی الارب۔ اساس البلاغہ۔ المصباح المنیر۔ مصباح اللغات وغیرہ۔