کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 11
وجہ سے کی گئی ہے۔ لیکن رازق حقیقی یا غیر عادی لین دین کا مختار سمجھتے ہوئے کسی کی طرف اس کی نسبت درست نہیں بلکہ یہ شرک ہے۔ یہی چیز اب میں قرآن کریم کی دیگر آیات اور احادیثِ نبویہ سے پیش کر کے اس مسئلہ کی وضاحت کرتا ہوں ۔ خالق غنی ہے اور مخلوق محتاج: جب یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ مطلق خالق اللہ تعالیٰ ہیں اور کل کائنات مخلوق۔ جس میں کل انبیاء شہداء، صالحین اور اولیاء اللہ حتیٰ کہ سب کے سردار نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل ہیں اور یہ بات بھی مسلم ہے کہ اپنے وجود کے لئے اللہ کا محتاج اپنے رزق و بقا کے لئے بھی اسی کا محتاج ہے اور رہے گا تو یہ بات بڑی عجیب ہے کہ جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کی محتاجی کیسے دور کرے گا؟ یہی وجہ ہے کہ غنی اللہ تعالیٰ کے اسماءِ حسنیٰ (صفاتی ناموں ) سے ہے اور اس معنی میں اس کا اطلاق کسی پر جائز نہیں حتیٰ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی ناموں میں بھی غنی کا ذِکر کہیں نہیں آیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَی اللہِ وَاللہُ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ اے انسانوں ! تم سب اللہ کے محتاج ہو اور اللہ غنی حمید ہے۔ (الفاطر: ۱۵) دوسری جگہ فرمایا: وَاللہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اللہ ہی غنی ہے اور تم محتاج (محمد: ۳۸) دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ غنی صرف اللہ تعالیٰ ہیں ۔ باقی سب محتاج۔ نیز کسی کا خالق و رازق ہونا آپس میں لازم و ملزوم ہے۔ جو خالق ہوگا وہی رازق ہوگا اور جو رازق ہوگا وہی خالق اللہ تعالیٰ کے خالق ہونے کے تو کفار بھی قائل تھے لیکن رزق کی نسبت وہ دوسروں کی طرف بھی کرتے تھے جس کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:۔ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ (الفاطر: ۳)