کتاب: محدث شمارہ 15 - صفحہ 10
منافقین کا مومنین سے اس قسم کا برتاؤ قرآن مجید کے کئی دیگر آیات سے بھی ثابت ہے لیکن اختصار کی غرض سے ہم ان کا ذِکر ضروری نہیں سمجھتے۔ اس آیت میں مال دیکر غنی کرنے کا جو ذکر آیا ہے اس سے اس طرف اشارہ ہے ،کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غرباء کو اللہ کے دیئے ہوئے مال سے دے کر خوشحال بنایا کرتے تھے۔ جن میں سے بیشتر منافقین اور کمزور ایمان والے لوگ بھی ہوتے تھے۔ اسی سازش کا ایک خاص سرغنہ جلاس نامی ایک شخص (جو بعد میں بحمد اللہ پکا سچا مسلمان ہو گیا تھا) خصوصی طور پر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ممنونِ کرم تھا کہ آپ نے ایک بار اس کا ایک بڑا قرضہ اتار دیا تھا۔ اس بہت بْڑے احسان کا بدلہ اس نے یہ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے خلاف سازش کی۔ اس پر یہ اللہ تعالیٰ نے طنز لطیف سے ان منافقین کی کمینہ فطرت کا بیان فرمایا کہ انہوں نے یہ سازش کر کے گویا اس بات کا انتقام لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوش حال بنایا کیونکہ یہ مال اللہ تعالیٰ کا تھا اور تقسیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اس لئے اَغنٰی (غنی بنانے) کے مجموعی فعل کو ونوں کی طرف نسبت کیا۔ اس بات کی وضاحت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جسے آپ نے مالِ غنیمت تقسیم کرتے ہوئے فرمایا تھا:۔ اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَّاللہُ یُعْطِیْ یعنی میں تو صرف تقسیم کنندہ ہوں ، دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ یہی وہ ہے کہ اس آیت میں لفظ ’’مِنْ فَضْلِھِمَا‘‘ کی بجائے ’’مِنْ فَضْلِه‘‘ آیا ہے کیونکہ یہ کام یعنی غنی بنانا صرف اللہ کا فضل ہے نہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کا۔ حاصل یہ ہے کہ اس آیت کے شانِ نزول اور سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہے کہ مالک رزاق صرف اللہ تعالیٰ ہیں ۔ دوسروں کی طرف رزق وغیرہ کی نسبت ہمارے عادی معاملات کے اعتبار سے تو درست ہے جیسا کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف قاسم ہونے کی