کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 30
دنیا کے لئے غم کھانا فضول ہے۔
33. گوش کن پند اے پسراز بہر دنیا غم مخور گفتمت روشن حدیثے گرتوانی دار گوش
یہ امر پایہ تحقیق کو پہنچ چکا ہے کہ دنیا اور کارِ دنیا فانی ہے۔
34. جہاں وکارِ جہاں جملہ ہیچ در ہیچست ہزار بار من ایں نکتہ کردہ ام تحقیق
غم و شادی اگر گذشتنی ہیں تو بہتر یہی ہے کہ ہر وقت دل کو خوش رکھا جائے۔
35. حافظا چوں غم و شادیٔ جہاں درگذر است بہتر آنست کہ من خاطرِ خود خوش دارم
میں اپنے کمزور بازوؤں کی وجہ سے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ ان میں مردم آزاری کے لئے زور نہیں ۔
36.من ازبازوئے خود وارم بسے شکر کہ زور مردم آزاری نہ دارم!!
دوستوں کے ظلم کا شکوہ دشمنوں سے نہیں کرنا چاہئے۔
37. آشنایانِ رہِ عشق گرم خوں بخورند کافرم گر بشکایت برِ بیگانہ روم!
اس مضمون کو اساتذۂ اردو نے بھی غلو آمیز رنگینی کے ساتھ پیش کیا ہے چنانچہ
شکوہ اک بت کا ہے محشر میں خدا کے سامنے
آشنا کا ہے گلہ نا آشنا کے سامنے! (ناسخؔ)
ہم نہیں وہ کہ کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مُکر جائیں گے (ذوقؔ)
ذوقؔ کے شعر کی امتیازی خوبیاں حافظؔ و ناسخؔ کے شعروں پر غیر جانبدارانہ نظر ڈالنے سے معلوم ہوتی ہیں ۔ جان سے ہاتھ دھو لینا آسان ہے لیکن ولی دوستوں سے قطع تعلق مشکل ہے۔
38.از جاں طمع بریدن آساں بود و لیکن از دوستانِ جانی مشکل تواں بریدن
راز پوشی ذریعۂ نجات ہے۔
39.بہ پیر میکدہ گفتم کہ چیست راہِ نجات؟
بخواست جامِ مے و گفت راز پوشیدن