کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 28
پیش کرتا ہوں ۔ اگرچہ اس طرح تنقید و تبصرہ کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا، لیکن اربابِ بصیرت کے سامنے صرف فانوس پیش کرنے کی ضرورت ہے، شمع کی لمعانی پر وہ خود بخود نگاہ ڈال لیتے ہیں ۔ اعمالِ الحہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ منشائے خدا وندی کا خیال رکھنا چاہئے۔ 15.برعمل تکیہ مکن خواجہ کے دو روزِ ازل توچہ دانی قلمِ صنع بنامت چہ نوشت ہر چیز کی بنا خلل پسند ہے لیکن بنائے محبت بے خلل ہے۔ 16.خلل پذیر بود ہر نبنا کہ مے بینی مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل دنیا کی مخالفت کی پروا نہ کر اور رضائے خداوندی کا خیال رکھ اگر تو دنیا سے لڑے گا تو دنیا بھی ترے ساتھ جنگ کرے گی۔ 17.برآستانۂ تسلیم سربنہ حافظ اگر ستیزہ کنی روزگار بستیزد! اسی نظریہ کو اظہر امرت سری نے دوسرے رنگ میں پیش کیا ہے جو خواجہ صاحب رحمہ اللہ کے مصرعہ ثانی کی شرح کی حیثیت رکھتا ہے۔ زمانہ میرے موافق نہیں تو کس کا قصور؟ کہ میں نے بھی تو نہ مانی کوئی زمانے کی! تنگ دستی میں بھی خدا کا شکر کر، کہیں یہ حالتِ بد، بدتر نہ ہو جائے۔ 18.روزی اگر غمی رسدت تنگ دل مباش روشکر کن مبادکہ از بدبتر شود ایامِ مصیبت میں صبر کر کیونکہ برے دن ہمیشہ نہیں رہتے۔ 19. اے صبور باش مخور غم کہ عاقبت ایں شام صبح گرود ایں شب سحر شود برے لوگوں کی صحبت انسان کو خراب کرتی ہے۔ 20. زاہد از کوچۂ رنداں بسلامت بگذر کہ خرابت نکند صحبتِ بدنامے چند عقل و دانش کی بات جاہلوں کو نہیں بتانا چاہئے۔