کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 27
بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
مے خورو مصحف بسوز و آٹش انر کعبہ زن
ہرچہ خواہی کن ولیکن مردم آزاری مکن
غرضیکہ خواجۂ مرحوم نے چند دل پذیر اور مؤثر الفاظ میں گناہِ اکبر کی جو تفصیلی تصویر پیش کی ہے۔ اس کا دامنِ معنی انسان کے تمام تصوراتِ حسنہ پر حاوی ہے۔ فلسفیانہ حقائق کی اس درجہ سادہ اور مختصر توضیح شاعری جزو ویست از پیغمبری کا روشن ثبوت ہے۔
14.نزاع بر سر دنیائے دوں کسے نہ کند
بآشتی ببراے نور دیدہ گوئے فلاح
جو لوگ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے قطع نظر کرنے کے بعد ’’آہنسا اور شانتی‘‘ کے فلسفہ کی باریکیاں ، ٹالسٹائیؔ یا گاندی کے آئینۂ افکار میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں ، ان کے لئے خواجہ صاحب رحمہ اللہ کا یہ شعر سرمایۂ استدلال ہے جس کے پہلے مصرعہ میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیائے دوں میں کوئی طالبِ فلاح جھگڑا نہیں چھیڑتا۔ دوسرا مصرعہ شعر کا تعلیمی پہلو ہے جس میں آشتی سے گوئے فلاح لے جانے کی تلقین کی گئی ہے۔ اگرچہ شعر دعوائے بے دلیل کا آئینہ ہے لیکن تعلیمی لحاظ سے ذہنیت افروز ہے تاہم میں ایک دنیا دار کی حیثیت سے اس تعلیم کی تائید نہیں کر سکتا کیونکہ فلاح کے ذرائع پر عام طور پر ان ظالمانہ قوتوں کا قبضہ ہوتا ہے جو تمام دینی و دنیوی ترقیوں کو اپنے اغراض کے ما تحت چلانا چاہتی ہیں اور ظالم جنونِ قوت میں صلح و آشتی سے ان چیزوں سے دست بردار نہیں ہو سکتا جن پر وہ غاصبانہ قبضہ جما چکا ہے۔ اس حالت میں طالبانِ فلاح کے لئے دو ہی رستے ہیں یا تو اپنی خواہشوں کو نذرِ نامرادی کر دیں یا ظالمانہ طاقتوں کو فنا کر دیں جو ان کی رفتارِ ترقی میں رکاوٹ ڈال رہی ہیں لیکن تعدیم ظلم صلح و آشتی سے نہیں ہو سکتی۔ یہ مقصد آگ اور خون کی بارش ہی سے پورا ہو سکتا ہے۔ ان حقائق کے پیشِ نظر خواجہ صاحب رحمہ اللہ کا نظریہ مخصوص حالات میں قابلِ قبول ہو تو ہو لیکن استمراری تعلیم کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔
اب میں طوالت کے خوف سے خواجہ صاحب رحمہ اللہ کے اشعارِ نا صحانہ صرف تشریحی عنوانات کے تحت