کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 26
اسی مفہوم کو دوسرے رنگ میں یوں پیش کیا گیا ہے۔ 12.حافظا آب رخت برورِ ہر سفلہ مریز حاجت آں بہ کہ برِ قاضی حاجات بریم خود اعتمادی، خود داری اور قناعت کا اس درجہ روشن اور واضح الفاظ میں شاید ہی کسی نے سبق دیا ہو بلکہ اس مسئلہ کی تمام جزئیات بھی مکمل صورت میں پیش کر دی گئی ہیں ۔ یہ ہے کمالِ فن 13.مباش در پئے آزار ہر چہ خواہی کن! کہ در شریعتِ ما غیر ازیں گناہی نیست مذاہب عالم اور اہل اللہ نے گناہ کا جو تخیل مناسب اصلاح کے بعد پیش کیا ہے اس کی روح معنی یہ ہے کہ خدا کے نزدیک وہ سب سے بڑا گناہ ہے جس کی بنا خلقِ خدا کی دل آزاری پر ہو اسی طرح وہ نیکی بلحاظ جزا تمام نیکیوں سے بڑھ کر ہے جس کے نتائج سوسائٹی کے لئے انفرادی یا اجتماعی طور پر سود مند ہوں ۔ شب زندہ داری، نماز روزہ، تقویٰ و پارسائی، زہد و عبادت یہ سب افعال انسان کے آئینہ اخلاق کو منور کرنے اور انسانی زندگی کو سود مند بنانے کا موجب ہیں لیکن اصولی طور پر یہ صرف انسانی سیرت کو روشن کرتے ہیں ان سے خدا کی ذات کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ لیکن جو شخص غرباء کی پرورش اور یتیم کی امداد کرتا ہے۔ ننگے کو کپڑا دیتا ہے۔ بھوکے کو روٹی کھلاتا ہے۔ مظلوم کو پنجۂ ظالم سے چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نادانستہ طور پر قدرت کو اس کے فرائض کی ادائیگی میں مدد دے رہا ہے کیونکہ حاجت روائی کی ذمہ داری پر عائد ہوتی ہے گویا خدمتِ عامہ کرنا خدا کی مدد کرنا ہے۔ اگرچہ اس کی قادریت کسی امداد کی محتاج نہیں لیکن وہ ان اعمالِ حسنہ کو بھی مسترد نہیں کرتا جو خلوصِ دل اور حسنِ نیت کی تحریک پر ظہور پذیر ہوتے ہیں چنانچہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: ’’خلقِ خدا کی خدمت کرنے والا ہی سردارِ قوم ہے۔‘‘ اسی طرح جو لوگ اپنی زندگی کو خلقِ خدا کے لئے شرِ محض بنا لیتے ہیں وہ صرف سوسائٹی کے لئے بھی وجہِ ننگ نہیں بلکہ قدرت کے فرائض میں بھی ناجائز اضافہ کرنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ اس لئے دل آزاری سے