کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 25
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو! تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو! خواجہ صاحب رحمہ اللہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں ہ: 7.زاہد غرور داشت سلامت نہ برد راہ رندازرہِ نیاز بدار السلام رفت زاہد کو اپنی پارسائی اور زہد و تقویٰ پر غرور تھا اور درگاہِ الٰہی میں غرور پسند لوگوں کی رسائی نہیں ۔ رند گناہ گار تھا لیکن وہ اپنی سیہ کاریوں پر نادم ہو کر عفو و لطف کا طالب تھا۔ درگاہِ الٰہی میں ندامت ہی سے بدکاریوں کی تلافی ہو سکتی ہے۔ شعر کا تعلیمی پہلو یہ ہے کہ انسان کو غرورِ عمل کامیاب نہیں ہونے دیتا۔ 8.چوبا حبیب نشینی و بادہ پیمالیٔ بیاد آرمحبانِ بادہ پیمارا! کتنا دل پذیر شعر ہے۔ ’’یادرفتگاں ‘‘ کا درس اس سے زیادہ مؤثر انداز میں نہیں دیا جا سکتا۔ ٹیگور اپنے فلسفیانہ جادوئے بیان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر چکا ہے کہ دنیا کسی کا ساتھ نہیں دیتی لیکن خواجہ مرحوم اس مسئلہ کو جس سادہ اور مؤثر انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ وہ آپ ہی کا حصہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ: 9.مجو درستیٔ عہد از جہانِ سُست نہاد کہ ایں عجوزہ عروس ہزار و اماد است ایک اور جگہ اسی مسئلہ کو دوسرے انداز میں پیش کرتے ہیں ۔ 10.برواز خانۂ گردوں بد روناں مطلب کایں سہ کاسہ ور آخر بکشد مہماں را ایک اور غزل میں اربابِ ہر کی بے مروتی کے پیش نظر خود اعتمادی کا درس دیتے ہیں کہ: 11.مرو بخانۂ اربابِ بے مروّت دیر کہ کنجِ عافیت در سرائے خویشتن است