کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 24
خواجہ صاحب رحمہ اللہ کی اس شعر سے یہ مراد ہے کہ شراب نوشی درندی انفرادی گناہ ہے جس کا خمیازہ بھی ایک ہی شخص کو بھگتنا ہو گا لیکن قرآن کو ’’دام تزویر‘‘ بنانے سے ساری سوسائٹی گمراہ ہو کر عذاب میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اس لئے اول الذکر گناہ ثانی الذکر جرم پر بلحاظ نتائج قابلِ ترجیح ہے۔ اسی قبیل کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے: 5.فقیہِ مدرسہ دی مست بود و فتوائے داد کہ مے حرام و لے بہ زمالِ اوقاف است اس شعر کے معانی و مطالب میں فلسفیانہ حسن کلام کی جھلک پائی جاتی ہے۔ فقیہ کا ذریعۂ معاش مالِ اوقاف تک محدود تھا۔ اسی مال سے وہ شکم پری کرنے کے بعد ہجومے کرتا تھا۔ اس کو مالِ اوقاف کی تحریم کا خیال تو تھا لیکن ذاتی فائدہ کے پیش نظر اظہارِ صداقت سے گریز کرتا رہا۔ کل کسی طریقہ سے اس نے شراب پی لی اور عالمِ مستی میں اس کو اپنے مفاد کا خیال نہ رہا۔ مالِ اوقاف تو اس کا ذریعہ معاش تھا ہی، شراب بھی اس نے پی لی۔ اب دونوں چیزوں کی عقوبت کے تصورات پر عقل دوڑانے کے بعد اس نے فتویٰ دے دیا کہ شراب حرام تو ہے لیکن اوقاف کے مال سے اچھی ہے۔ فقیہِ مدرسہ نے مستی سے پہلے اس لئے فتویٰ نہ دیا کہ کوئی دنیا پرست احترامِ شریعت کے لئے ذاتی اغراض کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس تشریح سے شعر کا تعلیمی پہلو خود بخود سامنے آجاتا ہے۔ 6.عیبِ رنداں مکن اے زہدِ پاکیزہ سرشت کہ گناہِ دگرے بر تو نہ خواہند نوشت جہاں تک لفظی معنی کا تعلق ہے اس شعر میں کوئی خوبی نہیں جو ’’حافظیت‘‘ کی آئینہ دار ہو لیکن تعلیمی اعتبار سے شعر کا ہر لفظ اپنے اندر شمع بصیرت روشن کیے ہوئے ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ زید کے گناہ کا خمیازہ کسی قانون کے مطابق عمرو نہیں بھگت سکتا لیکن عمرو اگر زید کے گناہوں پر تبصرہ کرتا ہے تو بجائے اصلاحِ اعمال کے غیبت کا مرتکب ہوتا ہے۔ شعر کا تعلیمی پہلو یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی گناہ گار کے ساتھ عقوبتِ گناہ میں شامل نہیں ہو سکتا تو اس کو لازم ہے کہ گناہ گاری پر تنقید کر کے اپنے تکبر کا ثبوت نہ دے۔ اس مسئلہ پر استاد ذوقؔ کا کتنا اچھا شعر ہے کہ: