کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 23
دامنِ امارت جس قدر وسیع ہوتا ہے، اسی قدر ہوس استعمار دِل میں پریشانیوں کو بھی لا داخل کرتی ہے۔ اس لحاظ سے طماع امیر پردہ صابر و شاکر مفلس فوقیت رکھتا ہے جو تھوڑی سے تھوڑی آمدن پر قناعت کر کے دل کو سکون و اطمینان کا درس دیتا ہے۔ یہ امرِ محتاج بیان نہیں کہ دیا میں وہی انسان آزادانہ سکون سے زندگی بسر کر سکتا ہے جس کی ضروریات محدود ہیں اور خواہشوں میں حرص و طمع کی جھلک کی بجائے قناعت کی روشنی ہے۔ لیکن یہ روشنی عام طور پر غریبوں کے جھونپڑوں میں ہوتی ہے۔ امیروں کے محل اس سے محروم ہیں جب تک امراء میں دولت و پیداوار کی صحیح تقسیم کا احساس پیدا نہیں ہوتا جب تک بادشاہوں کی حرصِ ملک گیری آتش و خون سے چمکتی ہوئی فضا کی تلاش ترک نہیں کرتی وہ گنج قناعت سے بہرہ ور نہیں ہو سکتے لیکن یہ دولت مفلسوں کے پاؤں پر سجدے کرتی رہتی ہے کیونکہ ان کی ضروریات اور خواہشیں اس قدر وسیع نہیں جن کے پورا کرنے میں قناعت سوز مشکلات حائل ہوں ۔ ان کو جو کچھ میسر آجائے وہی ان کی ضروریات کا مرکزِ تکمیل ہے۔ 4.حافظا مے خورو رندی کن و خوش باش ولے دامِ تزویر مکن چوں دگراں قرآن را! اس شعر میں مے نوشی اور رندی کو اس زہد سے بہتر قرار دیا گیا ہے جس کی بنا عوام فریبی اور ذاتی اغراض کے ذریعہ تکمیل پر ہے۔ شراب نوشی بد ترین جرائم میں سے ہے۔ رندی و شاہد بازی کرنا حود اللہ سے متجاوز ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن یہ سیاہ کاریاں نفسانیت کے مقتضا پر کی جاتی ہیں ۔ اس میں انسان کا ذاتی نقصان مضمر ہے جس کی تلافی اس کو جسمانی یا روحانی صورت میں ایک دن کرنا پڑے گی۔ شخصی گناہ عقوبت و نتائج کے اعتبار سے کتنا ہی خطرناک ہو۔ لیکن اس فریب کاری کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا جو سوسائٹی کے مفاد کو انفرادی اغراض کے ماتحت لانے کے لئے کی جاتی ہے اور وہ بھی خدا کے نام پر مذہب کے تقدس پر اور قرآنی نصوص کی امداد سے اس قسم کا گناہ جس کی وجہ جواز آیات قرآنی کی غلط تاویلات پر مبنی ہو اللہ اور کلام اللہ ہی سے روگردانی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس سوسائٹی کے لئے بھی پیغامِ ہلاکت ہے جو حقیقتِ قرآن پر ایمان رکھتی ہے۔