کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 22
فلسفۂ جدید کے نزدیک بہشت مطمئن زندگی کا دوسرا نام ہے لیکن اطمینان کی نوعیت اور اس کے ذریعۂ حصول کے متعلقہ زبانِ فلسفہ سے جو کچھ کہا گیا ہے۔ اس کے افہام و تفہیم کے لئے ہزاروں حلقہ ہائے فکر سے دلائل مانگنے پڑتے ہیں ۔ یہ خواجۂ مرحوم کے عقل و فکر کا معجزہ ہے کہ انہوں نے نہایت سادہ اور عام فہم الفاظ میں ایک ایسی حقیقت پیش کر دی جس کی وسعت ہزاروں صفحات پر حاوی ہے۔
اگر انسان مروت و مدارا سے دوست و دشمن کے دل مٹھی میں لے لینے کی صلاحیت پیدا کر لے تو اس کی توقعات میں خطرہ کی سیاہی کے بجائے اطمینان کی تجلیاں چمکنے لگ جاتی ہیں ۔ یہ وہ نعمت ہے، جس کو ’آسائش دو گیتی‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور غزل میں خواجہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
2.اے دل شباب رفتہ نہ چیدی گلے زعمر
پیرا نہ سرمکن ہوسِ ننگ و نام را!
زمانہ شباب میں آفتابِ زندگی نصف النہار پر ہوتا ہے۔ اس عمر میں حیوانی قواء کو قابو میں رکھنا خوش سیرتی کے لئے ضروری ہے لیکن آتش فشاں ولولے ضبط و تحمل کا پردہ پھونکے بغیر نہیں رہتے۔ جوش آلود امنگیں ہزاروں مجبوریوں کے باوجود قصرِ جوانی میں شمع ہوس جلا ہی دیتی ہیں ۔ اس زمانہ میں جو شخص حقوق اللہ و حقوق العباد کی دیوار نہیں پھاندتا اس پر نفسِ زہد کو بھی ناز ہے ورنہ بڑھاپے میں تو قواء کی افسردگی انسان کو جبری زہد کی طرف راغب کر لیتی ہے، چنانچہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
درجوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری ست
وقت پیری گرگ ظالم مے شود پرہیز گار
خواجہ صاحب رحمہ اللہ بھی اس شعر میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب جوانی کو جو عمر کا بہترین عملی حصہ ہے لہو و لعب میں برباد کر دیا گیا تو بڑھاپے میں مجبورانہ زہد و ورع کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔
خواجہ صاحب رحمہ اللہ قناعت کا سبق دیتے ہیں کہ:
3.ملکِ آزادگی و کنجے قناعت گنجے ست
کہ بشمشیر میسّر نشود سُلطان را!!