کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 21
پر لا کر چھوڑا ہے ورنہ حافظ ایک قادر الکلام اور جامع الشروط شاعر کی حیثیت سے جہاں نکاتِ تصوف کی تشریح کا حق ادا کرتا ہے وہاں انسانی زندگی کے نفسیاتی پہلوؤں پر بھی ہلکی سی روشنی ال رہا ہے۔
اس حقیقت سے تو کسی شخص کو انکار نہیں کہ حافظ اس عشق کے حقائق و معارف کا بوجوہِ تمام شارح ہے۔ جس کی پرورش آغوشِ روحانیت میں ہوتی ہے۔ لیکن یہ نظریہ حافظ کو شاعرِ کامل کی خلعت عطا نہیں کر سکتا کیونکہ شاعرِ کامل ان تمام انسانی حقیقتوں سے ناواقف ہوتا ہے جو کفِ پا سے لے کر موئے سر تک حاوی ہیں ۔ اسی طرح اس کی نگاہ احساسات و کیفیات کی دنیا سے ان کا نظارہ کیے بغیر نہیں رہتی۔ وہ علمِ بصیرت کی بنا پر انسانی فطرت کے تمام اندروی و بیروی واقعات پر فیصلہ کن بحث کر سکتا ہے۔ وہ اس کیفیت کے اسرار سے واقف ہوتا ہے جو ذی روح اور امرِ روح کے درمیان ذریعۂ گفتگو ہوتی ہے۔ اس کی آنکھیں ان نگاہوں سے بھی بے خبر نہیں جو نفسانی خواہشوں کی تحریک پر قابلِ احترام ہستیوں کو دعوتِ سیہ کاری دیتی رہتی ہیں ۔ وہ نظروں کو آئینہ بنا کر اس میں خلوت کی چھپی ہوئی عیش افروزیوں کا عکس دیکھ لیتا ہے۔ اسی طرح جب انسانی زندگی کے نقائص کی طرف اس کو متوجہ کیا جاتا ہے تو وہ عقل و فکر پر تول تول کر ایسے حکیمانہ نظریات پیش کرتا ہے جن میں اصلاح و تہذیب کی روح پوشیدہ ہوتی ہے۔ یہ تمام خوبیاں حافظؔ کے کلام میں پائی جاتی ہیں ۔ اس کو صرف تصوف و الٰہیات کا شارح قرار دینا بد ترین بے انصافی ہے۔ میں اس کی تائید میں اپنی طرف سے کوئی عقلی یا نقلی دلیل پیش کرنے کی جسارت نہیں کر سکتا کیونکہ
’’آفتاب آمد دلیلِ آفتاب‘‘
حافظؔ کا کلام ہی حافظ کو شاعرِ کامل ثابت کر رہا ہے۔ ذیل میں دیوانِ حافظ سے وہ اشعار پیش کرتا ہوں جن کا ہر ہر مصرعہ زندگی کی خطرناک راہ میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے جو حضرات سعدی رحمہ اللہ و صائب رحمہ اللہ کے حکیمانہ اقوال کو دلیلِ راہ بنا چکے ہیں وہ حافظ کے حکیمانہ اور بصیرت افروز اشعار سے بھی اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو روشن کرنے کی کوشش کریں خواجۂ مرحوم فرماتے ہیں :
1.آسائشِ دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است
بادوستاں مروت بادشمناں مدارا!