کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 20
حضرت خواجہ حافظ شیرازی رحمہ اللہ کا ناصحانہ کلام
نصیحت گوش کُن جاناں کہ از جاں دوست تردارند
جوانانِ سعادت مند پندِ پیرِ دانارا!!
جناب مولانا اظہر امرتسری
حضرت خواجہ شمس الدین حافظ شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام حقیقت التیام صوفیانہ حقائق و رموز کی تشریح و جدانی کیفیات کا ترجمان خیال کیا جاتا ہے۔ نشہ و سرور میں ڈوبے ہوئے الفاظ، صوفیانہ حسن اسلوب، وجد انگیز بندش، دل نشیں تاثرات کی خوشنما تنظیم نے ان کے کلام میں ایک معجز نما تاثیر پیدا کر دی کہ ہر مصرعہ ذہن میں آتے ہی دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے۔ میں جب کلامِ حافظؔ کا مطالعہ کرتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کوئی پر اثر جذبہ دل سے ابھر ابھر کر ان کیفیات کو اپنے دامن میں سمیٹ رہا ہے جو تاثیر شعر سے ذہن کو مسرور کرتی ہوئیں دل میں سما جانا چاہتی ہیں ۔
حافظؔ کا کلام روح و وجدان کا مجموعۂ گفت و شنید ہے۔ اس کے مصرعہ مصرعہ سے عرفان و حقیقت کی تجلیاں چھن رہی ہیں ۔ وہ عشق و محبت کے دریا میں غوطہ لگا کر زبانِ شعر کو حرکت میں لاتا ہے۔ اس کا کلام ان ہی لوگوں کے ضمیر پر دامنِ اثر پھیلاتا ہے جو توحید و معرفت کے رموز و اسرار بے نقاب دیکھنا چاہتے ہیں ۔ بایں ہمہ اس دریائے کیفیات کے سینہ میں حکمت و بصیرت کے بھی ہزاروں موتی چمک رہے ہیں لیکن ان کی لمعانی سے اس لئے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ ناقدینِ فن نے آج تک حافظ کو صرف ترجمانِ عشقِ الٰہی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور ان کے عام فہم شعر کو بھی فلسفیانہ کھینچ تان سے تصوف کے کسی نہ کسی مسئلہ