کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 19
کے الفاظ سوائے ابی عاتکہ کے کسی نے روایت نہیں کیے جبکہ معلوم ہے کہ شخص متروک الحدیث ہے۔ عقیلی رحمہ اللہ نے اس کو بہت ہی ضعیف کہا ہے۔ بخاری رحمہ اللہ نے منکر الحدیث کہا ہے نسائی نے کہا ہے کہ ثقہ نہیں ہے۔ ابو حاتم رحمہ اللہ نے ذاہب الحدیث کہا ہے اور سلیمانی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس کا وضعِ حدیث کرنا معروف ہے۔ دوسری سند کے ایک راوی یعقوب کو ذہبی رحمہ اللہ نے کذاب کہا ہے اور تیسری سند کے راوی عبد اللہ الجویباری کو سیوطی رحمہ اللہ نے وضاع کہا ہے۔‘‘ [1] مذکورہ بالا محدثین اور ناقدین کی توضیحات سے معلوم ہو گیا کہ یہ حدیث کسی شخص کی وضع کردہ ہے اور جن دو تین سندوں سے یہ حدیث مروی ہے۔ سب میں سخت ضعیف بلکہ وضاع راوی موجود ہیں جن کی بنا پر اس کا موضوع (بناوٹی) ہونا ظاہر ہے۔ اس حدیث کو روایتاً مردود ثابت کرنے کے بعد ہم اس کا وہ مطلب بھی عرض کیے دیتے ہیں جو مختلف ائمہ نے بیان فرمایا ہے۔ منذری لکھتے ہیں : ’’ای فیھا مبالغة فی البعد یعنی ’’ولو بالصین‘‘ سے مقصود دوری میں مبالغہ ہے۔‘‘ چونکہ چین عربوں سے بہت دور تھا اور اس ملک سے ان کا کوئی خاص بلا واسطہ تعلق بھی نہ تھا اس لئے دوری میں مبالغہ کے لئے ’چین‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ مثلاً امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: ’’ابو حامد اسرائینی رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اگر کوئی شخص چین تک تفسیر طبری حاصل کرنے کی خاطر سفر کرے تو یہ بھی کچھ زیادہ نہیں ۔‘‘ ظاہر ہے کہ چہین میں تو تفسیر طبری ملتی ہی نہ تھی۔ یہ صرف دوری ظاہر کرنے کے لئے کہا جاتا ہے، جیسے اردو میں مقولہ ہے۔ ’’ہنوز دلی دور است۔‘‘ اس سای بحث سے مقصود یہ ہے کہ اس قول سے اگرچہ مراد صحیح لی جا سکتی ہے لیکن اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دکھانا انتہائی جرأت ہے۔ صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جس نے میری طرف سے بات نسبت کی جو میں نے نہ کہی ہو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بناتا ہے۔‘‘
[1] سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ص ۲۴ تا ۲۷ ج ۱ (۵)