کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 16
اسی ماہ میں نجات ملی اور طوفانِ نوح میں مجرم کیفرِ کردار کو پہنچے۔
2. ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے نارِ نمرود اسی ماہ میں گلزار بنی اور نمرود اور اس کے ایجنٹوں کی کوششیں اکارت گئیں ۔
3. موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے دس محرم (عاشوراء) کو نجات ملی اور فرعون اور اس کی فوج غرقاب ہوئی۔
اس قسم کے بہت سے دیگر معرکہ ہائے حق و باطل تھے جن میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے حق کو کامیابی نصیب ہوئی اور باطل خائب و خاسر ہوا۔ اگر ان شخصیتوں سے ہمارا بھی کوئی دینی اور روحانی تعلق ہے اور اسی حق میں ہم پیروکار ہیں جس کی خاطر انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کیں اور جابر و ظالم بادشاہوں سے ٹکر لی تو ہمیں جہاں امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن الخطاب کی شہادت کا غم ہے وہاں ان چند واقعات پر خوش بھی ہونا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے جس نے حق کی مدد فرما کر اسلامی تاریخ کو ایسا تابناک بنایا اور ہمارے اسلاف کو اسی حق کی خاطر ثابت قدم فرما کر دین کا بول بالا کیا۔
ہمیں چاہئے کہ ان واقعات سے اچھا سبق لیں اور ان بزرگوں کی زندگیوں سے دینِ الٰہی کی خاطر ہر قسم کی جدوجہد کا نمونہ حاصل کریں ۔ حتیٰ کہ اگر اس راہ میں اپنے جان و مال کی قربانی بھی دینی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں ۔ ان واقعات کی یہی روح اور یہی ان بزرگوں کا مشن تھا۔ یہی راستہ دارین کی فوز و فلاح کا ضامن ہے اور یہی ان سے اظہارِ محبت کا طریقہ ہے۔
محرم کے مروجہ رواجات و رسوماتِ ماتم، مرثیہ خوانی، مجالس عزاء، تعزیہ داری، علم دلدل، مہندی تابوت، لباسِ غم پہننا، امام حسین کے نام کی سبیلیں لگانا، ان کے نام کی نذر و نیاز دینا اور مالیدہ چڑھانا شرعاً ممنوع ہونے کے ساتھ ساتھ ان ائمہ کے مشن سے کوئی نسبت نہیں رکھتا۔ نہ ہی ان کے خلاء و ورثاء محبین مخلصین کا یہ وطیرہ تھا او نہ ہی یہ سب کچھ ان سے اظہارِ عقیدت کا ذریعہ ہے۔
مراد ما نصیحت بود گفتمیم حوالت با خدا کریم رفتیم
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو صحیح رستہ پر چلائے اور بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین