کتاب: محدث شمارہ 14 - صفحہ 10
اس حدیث سے عاشوراء کے روزہ کا مسنون ہونا ثابت ہوا۔ دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے اس کے ساتھ نویں محرم کا روزہ رکھنے کا بھی ارادہ ظاہر فرمایا۔[1] اور مسند احمد کی اک روایت میں گیارہ محرم کا بھی ذکر ملتا ہے یعنی ۹ محرم یا گیارہ۱۱
یومِ عاشوراء اور عرب
عاشوراء کے دن کی فضیلت عرب کے ہاں معروف تھی۔ اس لئے وہ بڑے بڑے اہم کام اسی دن سر انجام دیتے تھے۔ مثلاً روزہ کے علاوہ اسی روز خاہ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بحوالہ ازرقی ذکر کیا ہے کہ ’’حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی عاشوراء کے روز خانہ کعبہ کو غلاف چڑھایا۔‘‘ (فتح الباری ج ۳ ص ۳۶۷)
حاصل یہ ہے کہ اللہ ارحم الراحمین اور نبی رحمۃ للعالمین ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے امتِ مسلمہ کو ماہِ محرم کی برکات و فیوض سے مطلع کر دیا ہے اور بعض ایام میں مخصوص اعمال کی فضیلت سے بھی آگاہ کر دیا ہے تاکہ ہم شریعت کے ہدایات کے مطابق عمل کر کے سعادتِ دارین حاصل کر سکیں ۔
اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم دیکھیے کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد وہ ہمیں کتنے عظیم الشان مواقع مہیا کرتا ہے جن سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم فیضانِ رحمت سے دامن بھر سکیں اور تلافیٔ مافات کرتے ہوئے اسی کی اطاعت و فرمانبرداری کے لئے کمر بستہ ہو سکیں ۔
رمضان خیر و برکت کی بارانی کرتا ہوا گزرا تو شوال اشہر الحج (شوال، ذی القعدہ اور ذی الحجہ) کی نوید لایا پھر ذی الحجہ ختم ہوا ہی تھا کہ حرمت و عظمت میں اس کا شریککار سن ہجری کا پہلا مہینہ اپنی برکات و فیوض سے ہم پر آسایہ فکن ہوا۔ گویا سدا رحمت برس رہی ہے۔ کاش کوئی جھولی بھرنے والا ہو! انسان کو چاہئے کہ ان مبارک اوقات کو غنیمت جانے اور اعمالِ صالحہ صوم و صلوٰۃ، ذکر و فکر، جہد و جہاد میں مصروف رہ کر اپنے آقا کو خوش کرے اور خداوندِ عزوجل کا قرب حاصل کر کے منزل مقصود پر پہنچ جائے لیکن یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوتا ہے کہ ہم ان ایام و شہور کی اصل برکتوں سے محروم رہ کر غلط رواجات اور قبیح رسومات میں مبتلا ہو کر یا ان میں شرکت کر کے ارحم الراحمین کی رحمت بے پایاں سے
[1] رواہ رزین